ابو یحیی
انسان کی معلوم کائنات دو دنیاؤں کا مجموعہ ہے۔ ایک خدا کی تخلیق کردہ دنیا ہے۔ یہ دنیا زندگی اور اس کی ہر رعنائی کا آخری نشان ہے۔ اس دنیا میں بے پناہ حسن ہے۔ بیحد توازن ہے۔ رنگ و خوشبو کی دل آویزی ہے۔ نغمہ و آہنگ کی دلکشی ہے۔ نور و لطافت کے ان گنت دریچے ہیں۔ لمس و لذت کے بے شمار جھروکے ہیں۔ زیست کی حرارت ہے۔ تاروں کی جگمگاہٹ ہے۔ جگنوؤں کی روشنی ہے۔ شفق کی لالی ہے۔ ہوا کی سرسراہٹ ہے۔ ساز کی دلکشی ہے۔ آواز کا سرور ہے۔ غرض حیاتِ مستعار کسی بھی خوبی کا تصور کرلے اس کا ایک مکمل نمونہ یہاں موجود ہے۔ یہ دنیا خداوند لازوال کے بے انتہا کمال کا ایک ادنیٰ تعارف ہے۔ مگر یہ کمال جمال کی رنگ آمیزی سے عبارت ہے۔
دوسری دنیا انسان کی اپنی دنیا ہے۔ اس دنیا پر موت کا راج ہے۔ یہاں فنا کی حکمرانی ہے۔ یہاں زلزلے ہیں۔ بجلیاں ہیں۔ سیلاب ہیں۔ طوفان ہیں۔ بیماریاں ہیں۔ بڑھاپا ہے۔ معذوری ہے۔ محتاجی ہے۔ غم و الم ہے۔ مایوسی و حزن ہے۔ خوف و ملال ہے۔ دکھ کی جلن ہے۔ پچھتاوے کی آگ ہے۔ یہاں بے گناہ قتل ہو جاتے ہیں۔ معصوم سزا پاتے ہیں۔ کمزور ظلم کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ہنرمند بے سہارا اور باصلاحیت بے روزگار رہ جاتے ہیں۔ غرض موت ہر قبا پہنے اور پریشانی ہر ردا اوڑھے اس دھرتی اور اس کے باسیوں کو ہر روز اپنا نشانہ بناتی ہے۔ یہ دنیا گرچہ خداکی رضا سے نہیں مگر اس کے اذن سے یقیناً ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے یہ بھی خدا کے کمال کا ادنیٰ تعارف ہے۔ مگر یہ کمال اس کے جلال کا عکس لیے ہوئے ہے۔
موت و زندگی کا یہ سلسلہ نجانے کب سے شروع ہوا اور کب تک چلے گا۔ کوئی نہیں جانتا۔ مگر جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ عنقریب انسان کی معلوم یہ دو دنیائیں ختم ہو جائیں گی۔ پھر ایک نئی دنیا قائم ہوگی۔ اس دنیا میں خدا ایک دفعہ پھر اپنے جلال و کمال اور اپنے جمال وکمال کی صناعی سے دو دنیائیں تخلیق کرے گا۔ مگر یہ دو دنیائیں اس کے کمال و جمال و جلال کا تعارف نہیں بلکہ اس کا مکمل نمونہ ہوں گی۔
ان میں سے پہلی دنیا جنت کی دنیا ہوگی۔ اس دنیا میں صرف جمال خداوندی کا ظہور ہوگا۔ مگر ہر جمال کمال کی انتہا کو پہنچا ہوا ہوگا۔ زندگی ہوگی مگر موت سے بے خوف۔ جوانی ہوگی مگر بڑھاپے سے بے پروا۔ حسن ہوگا مگر زوال سے ناآشنا۔ لذت ہوگی مگر ہر بیزاری سے محفوظ۔ سکون ہوگا مگر ہر اندیشے سے مامون۔ الحمد للہ و سبحان اللہ تعالیٰ ۔
دوسری دنیا جہنم کی دنیا ہوگی۔ اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں، محرومی، مایوسی، بھوک، پیاس، تڑپ، بے بسی، پچھتاوے غرض عذاب اور آگ کے اتنے روپ ہوں گے کہ گنے نہ جاسکیں۔ یہ سب بھی کمال درجہ میں ہوگا۔ مگر یہ کمال جلال و غضب کی اس تپش سے عبارت ہوگا جس سے سرزمین دوزخ کا ذرہ ذرہ سلگ رہا ہوگا۔ سبحان اللہ و للہ اکبر تعالیٰ جد ربنا۔
پہلی بستی کو دو قسم کے لوگ بسائیں گے۔ ایک وہ جو اِس دنیا میں اپنے مالک سے بے پروا ہوکر نہیں جیے۔ جو حکم سامنے آیا انہوں نے مانا۔ جہاں غلطی ہوئی معافی مانگ لی۔ ایمان و اخلاق کے تقاضوں کو چاہے ان کی زندگی نہ بنے، مگر مقدر بھر وہ ان کو بجا لاتے رہے۔ دوسرے وہ جو جنت کی اعلیٰ بازی لے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خدا کو اپنی زندگی بنالیا۔ وہ ہر لمحہ اس کی یاد اور محبت میں جیے۔ زندگی کے ہر سرد و گرم میں اس کے سامنے جھکے رہے۔ اس کے دین کی نصرت میں سعی و جہد کرتے رہے۔ عبادت رب میں سرگرم رہے۔ ایک ان دیکھا خدا ان کی زندگی بن گیا۔ سو روزقیامت جب خدا دکھائی دیا تو اس نے انہیں ابدی طور پر اپنے قرب سے نواز دیا۔
دوسری بستی کے باسی بھی دو قسم کے لوگ ہوں گے۔ پہلے وہ جو سرکشی کرتے رہے۔ ظلم و فساد مچاتے رہے۔ قتل و رہزنی جن کا شیوہ اور فسق و فجور جن کا پیشہ رہا۔ جن کے سامنے سچ آگیا، مگر جانتے بوجھتے انہوں نے آنکھیں بند کرلیں۔ انہوں نے حق کو حق کی شکل میں دیکھ لیا۔ مگر کبر نخوت نے ان کی گردن میں سریہ لگا دیا۔ ان کے سر نہ جھکے۔ پیشوائی، تعصب، مفاد پرستی جن کے دلوں کی بیماریاں اور حسد و کبر جن کے سینوں کا روگ تھا۔ ان کا روگ ان کو لے ڈوبا۔ اور ڈوبا بھی اس بستی میں جہاں ہر طرف عذاب کی بارش ہو رہی ہے۔
اس بستی کے دوسرے مکین وہ ہیں جن کے دل غفلت کا شکار رہے۔ دنیا کے مزوں اور لطف نے ان کو اندھا کر دیا۔ بدکاری اور بدی نے ان کی زندگی کا احاطہ کرلیا۔ وہ جانور بن کر جیے اور پیٹ و فرج کے تقاضوں سے اوپر اٹھ کر نہ دیکھ سکے کہ جمال و کمال کی کس دنیا میں وہ بسائے گئے ہیں۔ وہ خدا کی اس تعارف گاہ کو ایک چراگاہ سمجھے۔ معرفت ،عبادت اور عبادت کی خورا ک کے بجائے گناہ اور معصیت کا رزق ان کا مقدر بنا۔ انہوں نے معرفت رب کا ایک دفعہ ملنے والا یہ موقع ہمیشہ کے لیے گنوادیا۔ یہ غافل بھی سرکشوں کے ساتھ جلال الٰہی کی ناقابل برداشت تپش کا سامنا کریں گے۔
ہم سب ان چار گروہوں میں سے کسی ایک گروہ میں ہیں۔ زیادہ وقت نہ گزرے گا کہ سب کو معلوم ہوجائے گا کہ کون تھا جو خدا کی آہٹ پر ڈرنے والا تھا اور کون تھا جو انذار آخرت کی ہر گرج کے بعد بھی غفلت کی نیند سویا رہتا تھا۔ کون ہے جو سراپا حمد تھا اور کون تھا جو سرکشی کا پیکر تھا۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔