خیر ہو ارضِ دعا کے ساحلوں کی خیر ہو
ساحلوں سے دور میری کشتیوں کی خیر ہو
لفظِ پاکستان جن پر لکھ رہی ہے روشنی
یاخدا! محشر تلک اُن کاغذوں کی خیر ہو
عافیت کی چاندنی میں بام و در ڈوبے رہیں
گنگناتی،مسکراتی بستیوں کی خیر ہو
پھول برساتی ہوائیں وجد میں آتی رہیں
گلشنِ قائدؒ کے سارے موسموں کی خیر ہو
ذرّہ ذرّہ یا خدا، کرتا رہے تیری ثنا
برف کی چادر میں لپٹی چوٹیوں کی خیر ہو
یہ ہلالی سبز پرچم یوں ہی لہراتا رہے
خاکِ پاکستان کی شادابیوں کی خیر ہو
ہوں ذخیرے رزق کے گندم کے خوشوں میں ہزار
جو ملی ہیں نعمتیں اُن نعمتوں کی خیر ہو
پھول سے بچے تلاشِ رزق میں نکلے ہوئے
دشت و صحرا میں رواں ان قافلوں کی خیر ہو
ظلمتِ شب میں حصارِ خوف ٹوٹے یا خدا
ان فضاؤں میں چکمتے جگنوؤں کی خیر ہو
یاخدا! میرے وطن میں امن کا پرچم کھلے
رنگ بکھراتی ہوئی سب تتلیوں کی خیر ہو
عکسِ دلکش سب رہیں روشن در و دیوار کے
آئنہ خانے میں میرے آئنوں کی خیر ہو
بانٹنے خوشیاں گلی بازار میں نکلے ہوا
منزلوں کی سمت بڑھتے راستوں کی خیر ہو
مطمئن چہرے شعور و آگہی کے ہوں نقیب
عِلم کے انوار کے نامہ بروں کی خیر ہو
خوشبوئے ارضِ وطن کے جو امانت دار ہیں
خوش کلامی کے نئے ان سلسلوں کی خیر ہو
خون کی گردش حرارت مانگتی ہے آج بھی
سینۂ گیتی کی، یارب، دھڑکنوں کی خیر ہو
مکتبوں میں پڑھ رہے ہیں تختیاں لکھی ہوئی
شہرِ جاں میں علم و فن کے ذائقوں کی خیر ہو
خوف کی بارش مسلسل ہورہی ہے، یا خدا
آنسوؤں کی، ہچکیوں کی، سسکیوں کی خیر ہو
میرے دریاؤں میں پانی جھومتا، گاتا رہے
میرے کھلیانوں کی میرے پربتوں کی خیر ہو
روشنی کو رقص کرنے کی اجازت چاہیے
قصرِ دل کی بولتی سب چلمنوں کی خیر ہو
کامرانی کی نئی فصلیں اگا میرے خدا
کشتِ جاں پر رقص کرتے بادلوں کی خیر ہو
سرخ آندھی چل پڑی ہے جانبِ صحنِ چمن
بے ضرر چڑیوں کے نازک گھونسلوں کی خیر ہو
سب کے بیٹوں کو تو رکھ حفظ و اماں میں یا خدا
شام ڈھلتے، ماؤں کی بے تابیوں کی خیر ہو
ہم نہتے لوگ جنگل کے درندوں میں رہیں
کارواں کی بے سرو سانیوں کی خیر ہو
جس جگہ مبہم عبارت ہے اسے کر مسترد
ہر کتابِ عشق کے سب حاشیوں کی خیر ہو
امن کی ہر فاختہ کو ابنِ آدم کا سلام
جھیل پر اڑتی ہوئی مرغابیوں کی خیر ہو
ہوش کے ناخن ہمارے رہبروں کو بھی ملیں
خون میں ڈوبی ہوئی پگڈنڈیوں کی خیر ہو
پھر روابط کی ہوائے عنبریں چلنے لگے
اتحادِ باہمی کے ولولوں کی خیر ہو
پرچمِ جمہور لہرائیں مساکینِ وطن
خیر سے لکھّے ہوئے سب فیصلوں کی خیر ہو
کاش ہم پیچھا چھڑا لیں دور کی آواز سے
ارضِ جان و دل کے سارے دوستوں کی خیر ہو
نعرۂ تکبیر سے پھوٹے عزائم کی دھنک
منبعِ انوار و رحمت مسجدوں کی خیر ہو
قریۂ عشقِ محمدؐ ہے وطن میرا ریاضؔ
نعتِ ختم المرسلیںؐ کے رتجگوں کی خیر ہو