سلفی اسلام کی اہمیت اور صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کہنا کافی ہو گا کہ اس سے پاکستان کی بقا کو ایک عشرہ پہلے جو تصوراتی خطرہ لاحق تھا، اگر پاکستان کی افواجِ بالخصوص پاکستان آرمی اور پاک فضائیہ درمیان میں حائل نہ ہو جاتیں تو وہ حقیقت بن جاتا اور آج اسلام آباد میں سلفی خلافت کے نام سے پہلا سلفی خلیفہ سریر آرائے حکومت ہوتا۔....
اس مسئلے کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو اس خطرے کے کیف و کم، اس کی نوعیت، اس کی تخلیق و پرورش اور اس کے بیکراں محیط کا کچھ اندازہ ہی نہ تھا۔ ہماری آبادی کا ایک طبقہ تو یہ استدلال کیا کرتا تھا کہ پاکستان آرمی نے خود ہی پہلے سلفی تحریک کی نگہداشت و پرداخت کی، اسے مقبوضہ کشمیر میں استعمال کیا اور آج اپنے ہی کاشت کئے ہوئے پودے کی اس گھنی چھاﺅں میں ”آرام“ کر اور کروا رہی ہے جو ایک تناور درخت بن چکا ہے۔.... اگرچہ اس سے زیادہ بڑا جھوٹ ، اس سے زیادہ بڑی بے حسی اور بے خبری اور اس سے زیادہ بڑی سادہ لوحی پاکستانی قوم کی اور نہیں ہو سکتی، تاہم اس سلفی ”پراجیکٹ“ کی کچھ تفصیلات جو اب آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہی ہیں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ”عرب سپرنگ“ کے پس منظر میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں اور حد درجہ چشم کشا ہیں۔
”سلف“ کا لغوی معنی آباواجداد ہیں۔ لفظ سلفی میں آخری یائے نسبتی ہے جیسے بریلوی، دیو بندی، پاکستانی اور ہندوستانی وغیرہ میں ہے۔ اس لفظ کی جمع اسلاف ہے اور اس کے معانی بھی وہی آباواجداد کے ہیں۔ اُردو شعراءنے ان دونوں الفاظ کو انہی معانی میں استعمال کیا ہے.... مثلاً مولانا حالی کہتے ہیں:
سلف کی دیکھ رکھو راستی اور راست اخلاقی
کہ اس کے دیکھنے والے ابھی کچھ لوگ ہیں باقی
اور حضرت اقبال فرماتے ہیں:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
سلفی یا سلافی تحریک سے وہ تحریک مراد لی جاتی ہے جو20ویں صدی عیسوی کے آخری عشروں میں ایک نظری اسلامی تحریک سے اُٹھ کر ایک عملی جارحانہ تحریک بنی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسلامی اُفق پر چھانے لگی۔ بعض محققین کے نزدیک یہ اس تحریک کا جدید جنم ہے۔ کئی سو برسوں سے یہ مسلم اُمہ کے جسد میں داخل تھی، کسی آتش فشاں کی طرح کبھی سو جاتی اور کبھی جاگ کر طوفان اُٹھا دیتی۔ اس کے جدید عہد کاآغاز افغان جہاد سے ہوا۔ 1980ءکا عشرہ نہ صرف افغان جہاد کا عشرہ تھا بلکہ نئے اسلامی جمہوری ایران میں بھی ایک نئی اسلامی روح کے احیاءکا عشرہ بھی تھا۔ اسلام کے دو بڑے فرقے شیعہ اور سُنی اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہو رہے تھے۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی جو مغرب کا آلہ ¿ کار تھا، امریکی ایجنڈے کو پروان چڑھانے اور خلیجی ممالک کو ایک نئے اسرائیل میں ڈھالنے میں کوشاں تھا۔ اس کو حضرت آیت اللہ خمینی نے بروقت آ کر ملک بدر کیا اور افغانستان میں کمیونزم کی یلغار کو ان مجاہدین نے روکا جن کی مالی اور اسلحی امداد تو امریکہ نے فراہم کی، لیکن اصل تشویقی (Motivational) امداد اسی سلفی تحریک نے مہیا کی۔
اس سلفی تحریک کی نشوونما میں بہت سے عوامل کا ہاتھ ہے۔ مثلاً ایک تو مسلمان حکمرانوں کی سیاسی بے حسی، دوسرے مسلم اُمہ کا جدید وار ٹیکنالوجی سے بچھڑ جانا، تیسرے مغربی قوتوں کا اسلام کی تحقیر کو شعار بنانا اور چوتھے اسلام اور عیسائیت میں تہذیبوں کے تصادم کا معاملہ وغیرہ، ایسے تہہ در تہہ عوامل تھے جو ایک سادہ لوح مسلمان کی سمجھ میں نہیں آ سکتے تھے۔ مغربی تہذیب کی چکا چوند اور اس کی ہمہ گیر تاثیر نے ملت ِ اسلامیہ میں ایک طرح کی مایوسی پھیلا دی تھی اور مسلم اُمہ کو یہ سمجھنے میں دشواری پیش آنے لگی تھی کہ مغرب کی اس اسلام دشمن اور اخلاق سوز یلغار کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ لیکن بجائے اس کے کہ مسلمان، ٹیکنالوجی کی اس انیٹ کا جواب ٹیکنالوجی کے پتھر سے دیتے انہوں نے اینٹ کی ٹیکنالوجی کے بنانے والوں اور اس کے حامیوں کو ہی نیست و نابود کرنے کی ٹھان لی۔ بارود تو صدیوں سے موجود تھا، صرف خود کش بمباروں کی کمی تھی جس کو پورا کرنے کے لئے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی شوکت و سطوت کا واسطہ دیا گیا۔ کہا گیا کہ اگر اس شوکت و سطوت کو پھر سے واپس لانا ہے تو وہی ماحول، وہی نصاب، و ہی مدرسے، وہی شریعت اور وہی طرزِ زندگی اپنانا پڑے گا۔ ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی نہ تھی۔ مسلم اُمہ کی پہلی صدی ساری دُنیا کے لئے حیران کن بھی تھی اور مشعل ِ راہ بھی۔
آنحضورﷺ کا وصال632ءمیں ہوا اور732ءکے آتے آتے صرف ایک صدی میں اسلام چار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ ہندستان سے مراکش تک، سپین سے جنوبی فرانس تک اور افغانستان سے قازقستان تک مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہو گئیں اور صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں نے ہر شعبہ ¿ زندگی میں حیرت انگیز ترقیاں کیں اور آج کی ماڈرن مغربی دُنیا میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کا جو دور دورہ دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیاد بھی اسلام کی اسی پہلی صدی(632ءتک732ئ) ہی میں رکھی گئی۔.... چنانچہ جب20ویں صدی کے وسط میں جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر مسلم ممالک نے اپنی گزشتہ 1300برس کے نفع و نقصان کی سٹاک ٹیکنگ کی تو معلوم ہوا کہ قرون اولیٰ میں ہمارے پاس سب کچھ تھا اور آج کچھ بھی نہیں۔ ماضی کے اس”سب کچھ“ کو پھر سے پانے کے لئے بعض مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ اسلام کی پہلی صدی کو ”واپس“ لایا جائے، اسلاف کی راہ اختیار کی جائے، انہی کا طریقہ ¿ زندگی اپنایا جائے، انہی کے نقوش قدم پر چلا جائے اور اس سے سرِ مُو انحراف نہ کیا جائے .... زور ”سر ِ مُو“ پر تھا.... اور اسی نسبت سے اس جدوجہد، کوشش و کاوش اور سلسلہ ¿ عمل نے ” سلفی تحریک“ کا نام پایا۔
اول اول تو اس تحریک میں تشدد نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ بس تبلیغ ہی سب کچھ تھی اور وہ بھی پُرامن.... ان لوگوں کا نعرہ تھا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ اور وہی طرز زندگی اپناﺅ جو ہمارے اسلاف نے اپنائی تھی۔ یہی فلاح کی راہ ہے۔ ہمارے آباواجداد نے اسی راہ پر چل کر پورے نظامِ عالم کو بدل ڈالا تھا۔ آج اگر ہم بھی ان کی روش کی پیروی کریں گے تو کسی تشدد، جنگ و جدل، زدو خورد اور لڑائی جھگڑے کی ضرورت نہیں ر ہے گی۔ کہا گیا کہ اخلاق، تواضع، بردباری، حلم، خوش خلقی اور نرماہٹ سے کام لو اور منزلِ مقصود تک رسائی حاصل کرو۔ ایک سادہ مسلمان کے لئے اس پیغام میں کچھ برائی نہ تھی، بلکہ بھلائی ہی بھلائی تھی، نیکی ہی نیکی تھی اور فلاح ہی فلاح تھی۔ لیکن اس سکے کا ایک دوسرا رُخ بھی تھا جو پہلے رُخ سے بالکل مختلف بلکہ متضاد تھا اور جس کا اظہار حضرت اقبال ؒ نے یہ کہہ کر ایک صدی پہلے کر دیا تھا:
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی؟
اے پیرِ حرم! تیری مناجاتِ سحر کیا؟
لیکن پیرِ حرم کو کون سمجھاتا کہ مسلم اُمہ کے مرض کا علاج مناجاتِ سحر اور زبانی کلامی تبلیغ میں نہیں، بلکہ جُہد و عمل میں ہے۔ اس کے لئے مسلمان یا کافر ہونا شرط نہیں۔
ہست ایں میکدہ و دعوتِ عام است اینجا
قسمتِ بادہ با اندازہ¿ جام است اینجا
(یہ دُنیا تو ایک شراب خانہ ہے جہاںہر کسی کو دعوت عام ہے۔ جس کے ہاتھ میں جتنا بڑا یا چھوٹا جام ہو گا، اس کو اتنی ہی زیادہ یا کم شراب مل سکے گی)
لیکن سلفی تحریک نے یہ راستہ اختیار نہ کیا۔.... اُس نے اپنے جام کو ”بڑا“ کرنے کی بجائے اس شراب خانے میں جن لوگوں کے ہاتھوں میں بڑے بڑے ساغر دیکھے انہیں چھیننے کی کوشش کی، ان پر اچانک جا پڑے، بعضوں کے جام چور چور کر دیئے اور میناوں اور صراحیوں کو توڑ ڈالا۔ خود اپنے ہاتھ چونکہ خالی تھے اس لئے دوسرے جام بدست مے خواروں کے پیالے توڑ کر اُن کو بھی خالی ہاتھ کرنے کی کوشش کی اور میکدہ کا سارا نظام درہم برہم کر ڈالا۔ لیکن دُنیا میں اور بھی تو میکدے تھے۔ سب میں ہلڑی بازی مچانا ممکن نہ تھا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ اکثر شراب خانوں کے پیر ِ مغاں چوکنے ہو گئے۔ انہوں نے اپنے اپنے میخانوں کے باہر باقاعدہ اسلحہ بدست گارڈز بٹھا دیئے اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی اپنے سیکیورٹی رِنگ (Ring) کو مزید سخت اور چوکس کر دیا۔ (جاری ہے) ٭