وفاقی حکومت نے مرکز میں سات اہم وفاقی وزارتوں کے سیکرٹریوں کی تعیناتی کے لئے نجی شعبے سے افراد بھرتی کرنے کے لئے درخواستیں طلب کر لی ہیں،میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا کہ وفاقی حکومت کو کیا سوجھی ہے کہ تجربہ کار،ماہر اور سرکاری دفتری نظام کی سمجھ بوجھ والے افسروں کی موجودگی میں ناتجربہ کار اور سرکاری نظام سے ناآشنا لوگوں کو سیکرٹری لگا دیا جائے،سوال یہ ہے کہ یہ بھرتیاں کس قانون اور قاعدے کے مطابق کی جائیں گی؟ کیا کل کلاں کو وفاقی وزیر بھی ارکان اسمبلی سے لگانے کی بجائے براہ راست ہی حلف اُٹھا لیا کریں گے؟ میری معلومات کے مطابق گریڈ بائیس کے سیکرٹری کی تعیناتی براہ راست ممکن ہی نہیں یہ صرف بائی پروموشن ہی ممکن ہوسکتی ہے۔مختلف خبروں کے مطابق وفاقی کابینہ نے فیصلہ کرتے ہوئے سات وفاقی وزارتوں کے لئے سیکرٹریز کی تقرری براہ راست نجی شعبے کے ماہرین سے کرنے کی منظوری دی ہے، وزارت خزانہ،پیٹرولیم،توانائی،منصوبہ بندی،صنعت و پیداوار، قومی فوڈ سکیورٹی،ووکیشنل ایجوکیشن و ٹریننگ کے وفاقی سیکرٹری مارکیٹ سے لینے کا فیصلہ ہوا ہے ا س کے لئے عمر کی حد 60 سال ہے، تقرری دوسال کے لئے پرفارمنس بیسڈ معاہدے پر ہو گی،تنخواہ مارکیٹ سے ہم آہنگ،اندازاً 10سے 15 لاکھ روپے ماہانہ تک ہو گی۔
کیا یہ ایک اور کوشش نہیں ہے کہ اپنے وفادار افراد کو پبلک سروس میں لایا جائے،اس سے پہلے بھی ایسے اقدامات کے ذریعے کم صلاحیت کے متعدد افراد کو بھرتی کیا گیا اور یہ سب بھٹو کے اصلاحاتی پروگرام کی بدولت ممکن ہوا،جس کے تحت ”لیٹرل انٹری“ کی اجازت دی گئی تھی لیکن کیا آپ کسی ایک قابل و باصلاحیت شخص کا نام بتا سکتے ہیں جو واقعی نمایاں کارکردگی دکھا سکا ہو؟ میرے خیال میں ایسا کوئی نہیں،پہلے ہی متعدد من پسند افراد MP-1 اور MP-2 اسکیلز میں مختلف حکومتوں کی جانب سے بھرتی کئے جا چکے ہیں اور وہ وفاقی حکومت میں بلند تنخواہوں پر کام کرتے رہے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دائیں بائیں سے بھرتی ہونے والے افراد کیا پیشہ ورانہ مہارت میں باقاعدہ کیڈر کے افسروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟یہ اسی پالیسی کا تسلسل ہے کہ مختلف حلقوں سے چند مخصوص افراد، بااثر شخصیات کی سفارش پر، وفاقی سیکرٹریٹ میں اہم عہدے سنبھالنے والے ہیں،یہ ایک بدقسمت اور تباہ کن صورتحال نظر آ رہی ہے۔
پاکستان میں بیوروکریسی ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ ہے جو ریاست کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے، حکومتی فیصلوں کو نافذ کرنے اور عوامی خدمات کی فراہمی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے،اس نظام میں بھرتی کا بنیادی ذریعہ ”فیڈرل پبلک سروس کمیشن“ کے تحت ہونے والا مقابلے کا امتحان ہے جو شفافیت، میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر افسروں کا انتخاب کرتا ہے، مگر پچھلی کئی دہائیوں سے حکومتی حلقوں کی جانب سے ”لیٹرل انٹری“ یعنی باہر سے براہِ راست بھرتی کی پالیسی پر عملدرآمد کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اس پالیسی کو حکومت کی جانب سے اپنے وفادار افراد کو نوازنے کی ایک اور کوشش ہی قرار دیا جا سکتا ہے، ماضی میں جھانکا جائے تو لیٹرل انٹری کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا، ان کی اصلاحات کے تحت افسروں کی بھرتی کا ایک متبادل راستہ کھولا گیا،جس میں مارکیٹ یا نجی شعبے سے ماہرین کو براہ راست حکومت میں شامل کیا جا سکتا تھا، اس کا مقصد نظام میں تازہ خون اور ماہرین کی شمولیت تھا تاکہ بیوروکریسی میں جدیدیت اور صلاحیتوں کا اضافہ ہو مگر عملی طور پر یہ پالیسی سیاسی وفاداریوں اور اقربا پروری کا ذریعہ بن گئی، کئی غیر موزوں اور کم صلاحیت کے حامل افراد کو صرف ذاتی وابستگی کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا، نتیجتاً نظام میں میرٹ کی پامالی، مستقل افسروں کی حوصلہ شکنی اور عوامی اعتماد میں کمی واقع ہوئی۔
اب موجودہ وفاقی حکومت کی جانب سے حالیہ دِنوں میں اعلیٰ عہدوں کے لئے مارکیٹ سے بھرتی کی پوسٹیں مشتہر کی گئی ہیں، بظاہر ان کا مقصد ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہے مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بھی پرانے ہتھکنڈوں کا تسلسل ہے،اس عمل میں سیاسی وابستگان، ذاتی دوست، اور طاقتور افراد کے نامزد کردہ افراد کو نوازنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے،ماضی کے تجربات کی روشنی میں جب MP-1 اور MP-2 گریڈز میں مارکیٹ سے بھرتیاں کی گئیں تو اْن میں سے بیشتر افسروں نے اپنی کارکردگی سے کوئی نمایاں تاثر نہیں چھوڑا، وہ نہ صرف پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں پیچھے رہے بلکہ بیورو کریسی کے بنیادی ڈھانچے سے بھی ہم آہنگ نہ ہو سکے، جب لیٹرل انٹری کی آڑ میں سیاسی سفارش اور ذاتی وابستگی کو ترجیح دی جاتی ہے تو اس سے میرٹ کے نظام کو شدید نقصان پہنچتا ہے، باصلاحیت افراد جو مقابلے کے امتحان اور سخت تربیت کے مراحل سے گزر کر بیوروکریسی کا حصہ بنتے ہیں ان کے حوصلے پست ہوتے ہیں،جو افسر لیٹرل انٹری سے آتے ہیں وہ اکثر سرکاری نظام اور بیوروکریسی کے طریقہ کار سے ناواقف ہوتے ہیں، اس سے ان کے اپنے ادارے کے ساتھ ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے اور کام کی رفتار متاثر ہوتی ہے،اسی طرح ہائر اسکیلز میں جو افسر آتے ہیں اُن کی تنخواہیں باقاعدہ سروس والے افسروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں، مگر ان کی کارکردگی عموماً توقعات پر پوری نہیں اترتی یہ غیر مساوی سلوک ادارے کے اندر تناؤ اور تقسیم پیدا کرتا ہے۔ لیٹرل انٹری یا مجوزہ عمل سیاسی حکومتوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے وفادار اور پسندیدہ افراد کو بیورو کریسی میں شامل کر کے اہم عہدوں پر فائز کریں، جو انتظامی خود مختاری اور شفافیت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
حکومت کا موقف ہو سکتا ہے کہ بعض شعبے جیسے ٹیکنالوجی، توانائی یا اکنامکس میں ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو بیورو کریسی میں موجود نہیں،نجی شعبے سے آنے والے افراد مختلف ماحول میں کام کر کے آتے ہیں، اس لئے وہ نئی سوچ، کارکردگی کی بہتر روش اور اختراعی اقدامات لے کر آ سکتے ہیں،بعض اوقات کسی خاص پراجیکٹ یا ایمرجنسی میں تیز رفتاری سے عہدے پر تعیناتی کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لئے لیٹرل انٹری موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس کی بجائے ایڈوائزر کی پوسٹ رکھ لیں اور اس کی بھرتی کے لئے ایک شفاف، میرٹ پر مبنی اور سخت امتحانی عمل ہونا چاہئے تاکہ صرف حقیقی ماہرین کو چُنا جائے،ایسے لوگوں کی تقرری وقتی بنیاد پر ہو اور ان کی کارکردگی کا باقاعدہ آڈٹ کیا جائے اور اسے کسی آزاد ادارے کی نگرانی میں رکھا جائے تاکہ سیاسی مداخلت کو روکا جا سکے۔
میری نظر میں موجودہ بیوروکریسی میں اصلاحات کی ضرورت ضرور ہے،اصل مسئلہ نجی ماہرین کو لانا نہیں بلکہ موجودہ سسٹم کی کارکردگی بہتر بنانا ہے، اگر بیوروکریسی میں تربیت، اہلیت اور اختیارات کو بہتر کیا جائے تو بیرونی بھرتیوں کی ضرورت ہی نہیں،پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں ادارہ جاتی اعتماد اور میرٹ پہلے ہی بحران کا شکار ہے، وہاں ”لیٹرل انٹری“ جیسی پالیسیاں مزید ابتری کا باعث بن سکتی ہیں، صرف مخصوص مفادات کے لئے ایسے دروازے کھولنا اقربا پروری اور نااہلی کو فروغ دینے کے مترادف ہے،وقت کا تقاضا ہے کہ بیوروکریسی میں اصلاحات کی جائیں، موجودہ سروس افسروں کی استعداد کار میں اضافہ ہو۔
٭٭٭٭٭