صالح میری بے خودی دیکھ کر بولا:
’’سردار عبد اللہ! بے خود ہونے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنی منزل کی طرف چلیے۔‘‘
رضوان نے ایک راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’چلیے۔ آپ کی رہائش گاہ کا علاقہ اس سمت میں ہے۔‘‘
ہم آگے بڑھے۔ ایک دبیز سرخ رنگ کا قالین اس راستے میں بچھا ہوا تھا۔ ہم اس پر چلنے لگے۔ اس راستے میں دونوں سمت فرشتوں کی قطار تھی جو ہاتھوں میں گلدستے لیے، ریشمی رومال لہراتے،پھولوں اور خوشبو کا چھڑکاؤ کرتے سلام و مرحبا کہتے میرا استقبال کررہے تھے۔ یہ ایک طویل راستہ تھا جو دور تک چلتا چلا جارہا تھا۔ بچپن میں تصوراتی پرستان اور کوہ قاف کی کہانیاں شاید سب سنتے پڑھتے ہیں۔ یہ راستہ ایسے ہی کسی پرستان پر جاکر ختم ہورہا تھا۔ دور سے اس پرستان کی بلند و بالا تعمیرات نظر آرہی تھیں۔ یہ عالیشان عمارات اور شاندار محلات کا ایک منظر تھا جو سبزے سے لدے پہاڑوں، اس کے دامن میں پھیلے پانی کے فرش اور نیلگوں آسمان کی چھت کے ساتھ ایک خیالی دنیا کی تصویر لگ رہا تھا۔
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے رضوان سے پوچھا:
’’اس وقت ان گنت لوگ جنت میں داخل ہورہے ہیں، آپ کے پاس کیا اتنا فارغ وقت ہے کہ سب کو چھوڑ کر میرے ساتھ آگئے ہیں؟‘‘
وہ ہنس کر بولے:
’’یہاں وقت رکا ہوا ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ دو جنتی جو ایک کے بعد ایک کرکے اندر داخل ہورہے ہیں، ان کے اندر آنے میں کافی وقفہ ہوتا ہے۔ اور جو جنتی ذرا کم درجے کے ہیں وہ تو مہینوں اور برسوں نہیں صدیوں کے فرق سے اندر آئیں گے۔‘‘
میں نے صالح کی سمت دیکھ کر کہا:
’’ناعمہ؟‘‘
میری بات کا جواب رضوان نے دیا:
’’سردار عبد اللہ! آپ تو بہت پہلے اندر آگئے ہیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ناعمہ اور دیگر لوگ کچھ عرصے ہی میں یہاں آجائیں گے۔ مگر اس وقت میں آپ کے کرنے کا یہاں بہت کام ہے۔ آپ کو اپنی جنت، اپنی اس دنیا، اس کی بادشاہی ، یہاں کے خدام اوردیگر متعلقہ لوگوں سے واقفیت حاصل کرنی ہے۔‘‘
’’اچھا ! یہاں اور کون ہے؟‘‘
’’دیکھیے یہ آپ کے خدام میں سے چند نمایاں لوگ کھڑے ہیں۔‘‘
رضوان کے توجہ دلانے پر میں نے دیکھا کہ فرشتوں کے بعد قطار میں دونوں سمت ایسے لڑکے کھڑے تھے جو اپنی ٹین ایج کی ابتدا میں تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ غلمان ہیں اور یہی وہ لڑکے ہیں جن کے لیے قرآن نے موتیوں کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ واقعتا ایسے ہی تھے۔ بلکہ شاید موتیوں سے بھی زیادہ صاف، شفاف اور چمکتے ہوئے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ قرآن مجید نے جن حقائق کو بیان کرنے کی ذمے داری اٹھائی تھی، انسانی زبانیں ان کے بیان کے لیے اسالیب، تشبیہات اور استعاروں کا کتنا مختصر سرمایہ اپنے اندر لیے ہوئے تھیں۔ آج جو حقائق سامنے تھے وہ بیان کرنے کے نہیں صرف دیکھنے اور محظوظ ہونے کی چیز تھے۔ یہ غلمان بھی ایک ایسی ہی حقیقت تھے۔ فرشتوں کی طرح غلمان بھی پرجوش انداز میں میرا استقبال کررہے تھے۔ البتہ جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچتا وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ کر اپنا سر جھکادیتے۔ یہ موتیوں کی ایک لڑی تھی جو میرے استقبال میں بچھی جارہی تھی۔
قطار جب کافی طویل ہوگئی تو میں نے صالح سے کہا:
’’بھائی یہ نمایاں لوگ ہی اتنی تعداد میں ہیں تو کل خدام تعداد میں کتنے ہوں گے۔ اور اتنے لوگوں کا میں کیا کروں گا؟‘‘
صالح کے بجائے رضوان نے جو اسرار جنت سے زیادہ واقف تھے، جواب دیا:
’’آپ زمین سے آسمانوں تک پھیلی ہوئی ایک عظیم بادشاہی کے سربراہ ہیں۔ ان گنت کام ہیں جو آپ کو اس نئی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کیے جائیں گے۔ آپ ان کاموں کے لیے ان خدام کو استعمال کریں گے۔ یہ آپ کی ذاتی خدمت سے لے کر آپ کی عظیم سلطنت کی بیوروکریسی اور انتظامیہ تک کے سارے فرائض سرانجام دیں گے۔‘‘
’’تو گویا جنت بھی عیش و فراغت کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں بھی کام کرنا ہوگا۔‘‘، میں نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا۔
’’آپ بے فکر رہیں۔ یہاں کام مشقت نہیں عیش ہوگا۔ باقی جس عیش و فراغت کو لوگ دنیا میں ڈھونڈتے ہیں، اس کی بھی یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘
’’مگر یہ کام ہوگا کیا؟‘‘
’’میں تو یہ جانتا ہوں کہ آپ نے بادشاہی میں پیش آنے والے مسائل کے بغیر بادشاہی کرنی ہے۔ باقی اصل حقیقت تو صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور وہ دربار کے دن یہ ساری باتیں آپ کو براہ راست خود بتادیں گے۔‘‘
ہم کچھ دور اور چلے تو صالح نے کہا:
’’اب حوریں آرہی ہیں۔‘‘
صالح کے اس جملے کے ساتھ ہی مجھے حوروں کے بارے میں اس کی وہ شاعرانہ تعریف یاد آگئی جو اس نے میدان حشر میں کی تھی۔ میں اُس وقت صالح کی باتوں کو مبالغہ سمجھا تھا۔ اب محسوس ہوا کہ اس کے بیان میں مبالغہ نہیں کچھ کمی تھی۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ برتر تھی۔ ہم جیسے ہی ان کے قریب پہنچے تو غلمان کے برخلاف انہوں نے ایک مختلف کام کیا۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے بجائے دو زانو بیٹھیں اور کمر کو خم دے کر سر جھکادیا۔
میں نے رک کر صالح سے پوچھا:
’’یہ کیا کر رہی ہیں؟‘‘
’’یہ دیدہ و دل فرشِ راہ کررہی ہیں۔‘‘، اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
رضوان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’اصل میں انھوں نے آپ کے قدموں کو راحت پہنچانے کے لیے اپنے بال فرش پر بچھائے ہیں۔ اسی لیے یہ اس طرح جھکی ہوئی ہیں۔‘‘
اس کے کہنے پر میں نے غور کیا کہ وہ اس طرح سر کو جھٹکا دے کر جھک رہی ہیں کہ دونوں سمتوں سے ان کے بال زمین پر بچھ کر ایک ریشمی فرش بناتے جارہے ہیں۔ حسن کی یہ ادا میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ میں پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ مسکراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ جب میرے قدموں نے ریشمی زلفوں سے بنے اس فرش کو چھوا تو سرور کی ایک لہر میری روح کے اندر تک تیرتی چلی گئی۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ گرچہ میرے جسم پر انتہائی لطیف، مخملی اور دیدہ زیب شاہی لباس تھا لیکن میں نے جوتے نہیں پہن رکھے تھے۔
اس دوران میں رضوان نے مجھے ان حور و خدام کے متعلق مزید بتاتے ہوئے کہا:
’’ان حور و غلمان کے ظاہر سے ان کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوئیے گا۔ یہ لڑکے اور لڑکیاں انتہائی غیرمعمولی قوتوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہ لوگ آپ کے حکم پر زمین و آسمان ایک کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ آپ کے لیے جام شراب بھرنے کو بھی اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کو جو کچھ دیا ہے ابھی آپ کو اس کا معمولی سا اندازہ بھی نہیں ہے۔ ‘‘
میں رضوان کی بات کے جواب میں خاموش رہا۔ میرا دھیان احساس شکر گزاری کے ساتھ اس ہستی کے قدموں میں سجدہ ریز ہوگیا جس نے ایک فقیر اور بندۂ عاجز کو بہت معمولی عمل کے بدلے میں اس عزت و سرفرازی سے نوازا تھا۔ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں خود بھی سجدے میں جاگرا۔ میری زبان پر تسبیح و تمجید کے الفاظ تھے۔میں اسی حال میں تھا کہ اچانک بارش کے قطروں کی سی آواز آنا شروع ہوگئی۔ صالح نے میری پیٹھ تھپتھپاکر کہا:
’’عبد اللہ! اٹھو اور اپنے سجدے کی مقبولیت دیکھو۔‘‘
میں اٹھا تو ایک حیرت انگیز منظر میرا منتظر تھا۔ میں نے دیکھا کہ حور و غلمان کے چہروں پر بشاشت اور خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی اور ان کی جھولیاں انتہائی حسین موتیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ میں کچھ نہیں سمجھ پایا۔ صالح نے میری حیرت دور کرتے ہوئے کہا:
’’خدا نے تمھاری طرف سے ان کو بخشش عطا کی ہے۔ تمھاری آنکھوں سے تو آنسو ہی بہے تھے، مگرخدا نے ان کو قبول کرکے موتیوں کی برسات برسادی۔ یہ ان کے لیے تمھاری آمد پر ایک تحفہ ہے جو ان کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے۔‘‘(جاری ہے)
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول۔۔۔قسط نمبر60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)