پاکستان کے تعلیمی نظام کا رونا تو ہر جگہ رویا جا رہا ہے۔ پاکستانی یونیورسٹی کا معیار تازہ ترین جاری ہونے والے سروے میں جو سامنے آیا ہے اس میں اگر کہہ لیا جائے اونچی دکان پھیکا پکوان، تو غلط نہ ہو گا۔ہائر ایجوکیشن سے رجسٹرڈ یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈ سے رجسٹرڈ کالجز اور سکولز نے جو منڈی لگا رکھی ہے اس پر بات آج کی نشست میں نہیں کرنی ہے، کیونکہ تعلیمی معیار، فیس طے کرنے کا عمل، ماحول، اخلاقیات سب کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔پنجاب حکومت نے ایجوکیشن اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا اور کہا گیا اتھارٹی اداروں کی رجسٹریشن سے لے کر فیسوں کا تعین، اساتذہ کی بھرتی کا کرائی ٹیریا، تمام دیگر امور مانیٹر کرے گی۔ گزشتہ15سال سے اربوں روپے کے وسائل رکھنے والی پنجاب حکومت پنجاب ایجوکیشن اتھارٹی کا قیام عمل میں نہیں لا سکی ہے۔ مرضی کی فیسوں کے ساتھ نجی اداروں نے جو مانپلی قائم کر لی ہے۔ کوئی حکومت اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں، رہی سہی کسر نجی اداروں نے اپنے ٹی وی چینل نکال کر پوری کر لی ہے کوئی حکومت بھی ان سے تعلقات خراب کرنے کے لئے تیار نہیں،بلکہ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے حکومتوں پر دباؤ بڑھا کر مرضی کے فیصلے کروائے جا رہے ہیں۔پرائیویٹ یونیورسٹیاں فیسوں میں ماہانہ اضافہ کریں یا تین ماہ بعد، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔آج کے کالم میں سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیم کے نام پر کیا کیا گُل کھلائے جا رہے ہیں، کن کن یونیورسٹیوں نے اندر کھاتے ٹرسٹ بنا کر عوام کے ساتھ حکومتوں کو اربوں روپے ٹیکس بچانے کا مکروہ دھندہ شروع کر رکھا ہے،زیر بحث نہیں ہے۔آج کے کالم میں پنجاب حکومت کی طرف سے ورلڈ بنک اور یہودی لابی کی طرف سے پنجاب کی کروڑوں عوام کی واحد امید سرکاری سکولوں کی نجکاری ہے، جس کا ناکام تجربہ گزشتہ حکومتیں پفPEF کے نام پر کر چکی ہیں اب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پبلک سکول ری آرگنائزیشن پروگرام (PSRP) کے نام سے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔معیاری تعلیم کے دعوے کے ساتھ سرکاری سکولوں کی بحالی کا انقلابی منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت دور دراز علاقوں کے پرائمری سرکاری سکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEP) کو دے کر بُری طرح ناکام ہو چکی ہے جن افراد یا این جی او کو سکول دیئے گئے تھے وہ بھاگ چکے ہیں پورے منصوبے کا دھڑن تختہ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ اس کا جائزہ لینے اور تحقیقات کروانے کی بجائے نیا منصوبہ متعارف کرا کر سینکڑوں درخواستیں 5جون تک وصول کر لی گئی ہیں۔ لاہور سمیت پنجاب کے 5863 سرکاری سکولوں کو فیزI میں انفرادی شخصیات تین افراد پر مشتمل گروپ اور سکولز چین اور این جی اوز کو دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اربوں روپے مالیت کے سکولوں کی کروڑوں روپے کی سرکاری زمین اور لاکھوں روپے کے سازو سامان سے لیس سکولوں سے جان چھڑانے کا خوفناک منصوبے کا آغاز ہو چکا ہے۔سرکاری سکولوں کے اساتذہ جن کو مردم شماری، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے،پولیو کے قطرے پلانے جیسی مہمات میں لگا کر پہلے تعلیمی اداروں سے باہر رکھنے کی سازش کی گئی۔ سالہا سال سے نئی اساتذہ کی بھرتی نہ کی گئی اور اب جواز بتایا جا رہا ہے فیزI میں 567 ایسے سکول جن میں کوئی ٹیچر نہیں ہے ان کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ منصوبے میں دیا جائے گا۔
پہلے فیز میں ہی2552 ایسے سکول جن میں ایک ٹیچر ہے ان کو این جی اوز کے سپرد کیا جا رہا ہے،2741 سکول جہاں بچوں کی تعداد 50 سے زیادہ نہیں ہے اور دو ٹیچر ہیں ان کی نجکاری کی جائے گی۔تعلیم ریفارم پروگرام میں بچوں کی تعداد میں اضافہ، کوالٹی ایجوکیشن، بہترین سہولیات کی فراہمی ہدف بنایا گیا ہے۔
آئینی طور پر تحفظ دینے کے لئے25A کا سہارا لیا گیا ہے فیز ٹو میں 4453 سکول جن میں دو ٹیچر ہیں اور51سے100 طالب علم ہیں ان کو ہدف بنایا گیا ہے۔ فیز2میں ہی2903 سکول جن میں دو ٹیچر اور کم از کم100طالبعلم ہیں ان کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (ppp) کے تحت انفرادی۔ تین افراد کے گروپ، سکول چین، این جی او کے سپرد کر دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے بنیادی طور پر پنجاب حکومت نوجوانوں کو ترغیب دے کر قریب کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بڑا جامع منصوبہ تشکیل دیا ہے اس میں پرائیویٹ کئے جانے والے سکولوں میں داخل ہونے والے بچوں سے فیس نہیں لی جائے گی بلکہ مالکان بننے والی انفرادی شخصیات این جی اوز کو600روپے فی بچہ حکومت دے گی، سکول خریدنے کے لئے 10ہزار سے50ہزار ناقابل واپسی فیس کے ساتھ درخواستیں لے لی گئی ہیں، سرکاری افسر ملازمین کو اہل نہیں کیا گیا۔تین سالہ تدریسی تجربہ کم از کم عمر40 سال انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپیوٹر سائنسز ماسٹر ڈگری اور بی اے پاس نوجوان اہل قرار دیئے گئے ہیں۔ پی پی پی کے تحت سکولوں کے نئے مالکان پرانے اساتذہ کو نکال سکیں گے، نئے رکھ سکیں گے ایک سے دس سکولوں تک کی ملکیت کی درخواست لی گئی ہے اس لئے منصوبے کا حال پف والا ہوتا ہے یا کامیابی ملتی ہے اس کا فیصلہ وقت ہیکرے گا۔
البتہ پنجاب کے نوجوان وزیر رانا سکندر نے پنجاب اسمبلی میں ٹیچرز کی تمام تنظیموں کو کھانے پر بلایا اور مریم صاحبہ کا منصوبہ بتایا، ساتھ انہیں باور کرنے کی کوشش کی کہ آپ کے خلاف نہیں کسی کو نوکری سے نہیں نکالیں گے مگر ٹیچر جو ہر چیز کو سمجھ رہے ہیں درجنوں عہدیداروں نے متفقہ طور پر تقریب میں نہ صرف کھانا کھانے سے انکار کر دیا بلکہ اس منصوبے کو نامنظور کا نعرہ لگاتے ہوئے بائیکاٹ کر دیا۔رانا سکندر کو شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی اس نے مختلف یونین کو اساتذہ کے مطالبات کابینہ میں دوبارہ پیش کرنے کی شرط کے ساتھ معاملہ وقتی طور پر نمٹایا، اساتذہ غصے میں ہیں، عوام بھی پریشان ہیں۔ 10ہزار سے50ہزار ناقابل واپسی کی درخواست کے ذریعے ایک اور دس دس سکول کے مالکان بننے والے اساتذہ اور والدین اور عوام کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ اضطراب بڑھ رہا ہے، کیونکہ ہزاروں اساتذہ کی ڈاؤن سائزنگ کے منصوبے کی وجہ سے تمام اطراف سے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے اللہ خیر کرے۔
٭٭٭٭٭