موسیقی کی آوازیں بھی آنا شروع ہوگئی تھیں، سنگترے کا رس اور کباب کی پلیٹ منگوا لی، مصریوں کے بیلے اور کیبرے ڈانس کے بارے میں بڑا کچھ سنا تھا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:53
کیبرے اور بیلے ڈانس
اس دوران اوپر سے موسیقی کی آوازیں بھی آنا شروع ہوگئی تھیں۔ مصریوں کے بیلے اور کیبرے ڈانس کے بارے میں بڑا کچھ سنا تھا۔ ایسے ہی جی میں آیا کہ سعودی عرب میں رہتے ہوئے تو یہ سب کچھ دیکھنا ناممکن تھا، کیوں نہ یہاں اس مشہور زمانہ رقص کی بھی ایک جھلک دیکھ لی جائے، تاکہ دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہ جائے۔
پہلے تو یہ سوچ کر مجھے کچھ شرم سی آئی پھر سوچا کہ یہ بھی ان کا ایک طرح کا روایتی رقص ہے جو یہاں تقریباً ہر جگہ کھلے عام ہوتا ہے اور ان کے مرد اور خواتین دونوں میں یکساں مقبول ہے اور بڑے ذوق شوق سے دیکھا جاتا ہے، تو میں بھی اوپر ہال میں چلا گیا۔
وہاں کچھ پڑھے لکھے مصری مرد و خواتین کے ایک گروپ کو دیکھ کر میں ان کی طرف بڑھ گیا اور ان سے اجازت لے کر ان کی بڑی سی میز پر ایک کونے میں لگ کر بیٹھ گیا۔ پھر جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے انتہائی خوش دلی اور گرم جوشی سے مجھے خوش آمدید کہا اور جب میں نے انہیں اپنی ہلکی پھلکی عربی بول کر دکھائی تو انہوں نے نہ صرف ایک مسکراہٹ کے ساتھ قبول کیا بلکہ قریب آکر بیٹھ جانے کو بھی کہا۔ کھانا میں کھا کر آیا تھا اس لئے سنگترے کا رس اور کباب کی پلیٹ منگوا لی اور ہم خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ یہاں بھی تقریباً ہر موضوع پر بات ہوتی رہی۔
سامنے سٹیج پر خوبصورت سیاہ مغربی سوٹوں میں ملبوس سازینہ نواز بینڈ بجانے میں مشغول تھے اور ایک مصری حسینہ کچھ گا رہی تھی۔ ان کے مخصوص لہجے کی بدولت کبھی کبھار ہی اس کا کوئی لفظ سمجھ میں آتا تھا۔ ہال میں ہر طرف سیگریٹوں کا دھواں اور ام الخبائث کی بو پھیلی ہوئی تھی جس سے مرد و زن دونوں ہی یکساں طور پر محظوظ ہو رہے تھے۔ یہ بلاشبہ اونچی سوسائٹی کے لوگ تھے جن کے پاس پیسہ ہی بڑا تھا اور جسے اب وہ پانی کی طرح بہا رہے تھے، ورنہ ایک عام مصری تو اس عیاشی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
گانے کا سلسلہ ختم ہوا تو فالتو روشنیاں گل کر کے ایک خاص قسم کا ماحول بنایا گیا اور لوگ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ پہلے تو نچلے درجے کی کچھ رقاصائیں باری باری سٹیج پر آکر اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگیں۔ حاضرین خوش ہو کر بے قابو ہوتے جا رہے تھے اور خوب تالیاں اور سیٹیاں بجا کر ان کا ساتھ دے رہے تھے اور کچھ لوگ تو ان پر آوازے بھی کس رہے تھے۔
پھر جب رات اچھی خاصی ڈھل گئی تو وہ مصری رقاصہ اپنے انتہائی مختصر لباس لیکن بھاری بھرکم وجود اور شدید میک اپ کے ساتھ میدان میں اتری۔ بینڈ نے اپنی دھن بدلی اور اس حسینہ نے بیلے ڈانس کے وہ کرتب دکھائے کہ لوگ ہوش و حواس کھو بیٹھے اور کرسیوں سے اٹھ کر اس کے پاس پہنچ کر اس کے ارد گرد گھیرا ڈال لیا اور اس کے ساتھ رقص میں شریک ہوگئے۔ وہ بلند آواز سے اس کی ذاتی خوبصورتی اور فن کی داد دیتے رہے۔
میرے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ پروگرام صبح2بجے تک چلے گا۔ میں نے اپنے بل کی ادائیگی کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ایسا کرنے نہ دیا۔ میں ساڑھے بارہ بجے وہاں سے اٹھ گیا، کیونکہ اگلی صبح ایک بہت ہی تھکا دینے والا سفر میرا منتظر تھا۔
پھر میں ایسا ٹوٹ کے سویا کہ استقبالیہ والوں کے فون کی مسلسل گھنٹیوں سے ہی آنکھ کھلی۔ وہ مجھے فوراً اٹھنے کو کہہ رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ٹھیک2گھنٹے بعد میری فلائٹ کی روانگی ہے جس کے لیے مجھے اگلے ایک گھنٹے میں ایئرپورٹ پہنچنا ضروری ہے۔یہ بھی بتایا کہ میں ان سے اپنا پاسپورٹ، ٹکٹ اور وہاں کے گائڈ اور ہوٹلوں وغیرہ کے بارے میں ضروری معلومات اور بکنگ کے کاغذات وصول کر لوں۔
جب میں ایئرپورٹ پہنچا تو فلائٹ روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ ضروری کاغذی کارروائی کے بعد مجھے انہوں نے اپنی ایک مقامی پرواز میں بٹھا دیا جو کچھ ہی دیر بعد ا لأقصرکی طرف اڑان بھرنے والی تھی۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں