تعلیمی نظام کی بہتری
الفاظ کی دنیا گہرا اثر رکھتی ہے ۔ الفاظ زخم بھی دیتے ہیں اور مرہم کا کام بھی کرتے ہیں۔ الفاظ غلامی بھی کرتے ہیں اور حکومت بھی، الفاظ وار بھی کرتے ہیں اور حفاظت بھی۔ یہ کاٹتے ہیں،گریبان پھاڑ تے ہیں، وجود کو چھلنی بھی کرتے ہیں، اور یہی الفاظ ہیں جو گریبان سی دیتے ہیں۔ دکھوں کو سکھوں میں بدل دیتے ہیں اور عزت و احترام کا رشتہ قائم کر کے تعلقات کو تقویت دیتے ہیں۔ الفاظ کی ادائیگی سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ الفاظ وجود کو سمیٹیں گے یا کرچی کرچی کر دیں گے، ریاست کی عمارت کی بنیاد عوام کے حقوق پر کھڑی ہوتی ہے۔
کچھ ایسے حقوقِ بھی ہوتے ہیں جو انسان کے وجود کو شروع دن سے ہی مل جاتے ہیں اور وہ اخلاقی حقوق ہیں۔ اعلی قیادتیں ہمیشہ معلمین و علماء کی عزت کے پیش نظر ہر وہ کام کرتی ہیں جو ضروری ہوں۔ تصویر کے دونوں رخ دیکھنے لازمی ہیں۔ معلمین و علماء کا عمل و کردار بھی مثالی ہونا چاہئے۔ کیونکہ ان کے کردار و عمل پر طلباء کا کردار و عمل استوار ہوتا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ سرکاری سکولز کی نجکاری جب بھی کی گئی ،سود مند ثابت نہیں ہوئی بلکہ سرکاری املاک ویران ہو گئیں۔
سرکاری سکولز میں ایسے اساتذہ بھی ہوتے ہیں جو اپنے پڑھانے کے فرائض کے علاوہ غریب طلباء کی مالی امداد کرتے ہوئے ضروری چیزیں مہیا کرتے ہیں۔ ایسے طالبعلم بھی ہیں جو تعلیم جاری رکھ نہیں سکتے لیکن ان طالبعلموں کے شوق کی وجہ سے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے معلمین ان کو سکول اوقات کے علاوہ پڑھائی میں رہنمائی کرتے ہیں اور یہی رہنمائی ان بچوں کی کامیابی کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔ جو افراد سرکاری اداروں سے زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر نکلے ہیں، وہ اساتذہ کی محبت و شفقت سے ضرور آگاہ ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہاتھ کی سب انگلیاں برابر ہیں لیکن زیادہ تر یہی دیکھا گیا ہے کہ سرکاری سکولز کے اساتذہ اور والدین کی محبت ایک جیسی ہوتی ہے اور سرکاری معلمین حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل تابناک بنا سکیں۔
نجکاری کی صورت میں بچوں کی زیادہ تعداد طوطا بن کر نکلے گی جو خوش آئند بات نہیں ہے۔ کیپیسٹی بلڈنگ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تربیتی ورکشاپس کروائی جائیں اور خصوصاً اداروں کے سربراہان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ خود کیپیسٹی بلڈنگ کے فرائض بخوبی نبھا سکیں جس سے ملکی معیشت پر بھی کوئی بوجھ نہ بنے ۔ سکیل کی اپ گریڈیشن کے لیے باقاعدہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرز پر مکمل امتحانات کا انعقاد کیا جائے تاکہ معلمین جو تعلیم و تربیت میں دن رات ایک کرتے ہیں، اپنی منازل کو حاصل کرتے ہوئے طلباء کی قابلیت میں نکھار پیدا کر سکیں۔
سرکاری اداروں کے اساتذہ صرف اداروں میں معلمین نہیں ہوتے بلکہ وہ چوبیس گھنٹے اپنی سوچ و سطح اور کردار کو اس مقام پر رکھتے ہیں جو معلمین کو زیب دیتی ہے۔ عزت وتکریم پہلی شرط ہے۔ اگر معلمین کی عزت و احترام کا خیال رکھا جائے گا تو آنے والی نسل کی ہر پیڑھی ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد بنے گی۔ دوسری صورت میں غلامانہ طرز سوچ پر دیوار کھڑی ہو گی جو یقینا ناپائدار ہو گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سرکاری ادارے سے طلباء امتحانات میں ناکام کیوں ہوتے ہیں اوردوسری طرف اسی ادارے سے پوزیشن لینے والے بھی نکلتے ہیں؟ وجوہات کافی ہیں اور مختلف اقسام کی۔۔۔ لیکن بنیادی وجوہات میں کمزور معیشت، والدین کی عدم توجہ، اساتذہ کو پڑھائی کے علاوہ دوسرے کاموں میں الجھانا اور زبان کے مسائل شامل ہیں۔ کمزور معیشت کی وجہ سے اس دور میں بھی طالبعلم کشمکشِ کا شکار ہیں کہ کس شعبہ میں پڑھائی کریں؟
بہترین معیار تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ سلیبس کو ترتیب دیتے ہوئے ماہرین تعلیم کے ساتھ ساتھ ،اساتذہ اور بیوروکریسی کے ارکان کو شامل کیا جائے تاکہ ہر لیول کے لیے ایک بہترین اور جامع سلیبس بنایا جائے، جس سے بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا جا سکے۔ تعلیم کی ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس میں طالبعلموں کے لیے وقت کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ قابلیت میں نکھار پیدا کیا جا سکے، معلمین کی عزت و تکریم میں اضافہ کے ساتھ معاشی حالت کو بہتر کرنے کے اقدامات شامل ہوں اور جس کے توسط سے ایسا طرز عمل تشکیل دیا جا سکے جس میں مقابلے کی فضا پیدا ہو۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔