رسالوں کی باتیں۔۔۔’’فانوس‘‘ اور ’’صحیفہ‘‘!

May 14, 2016

ناصر زیدی

آج کے اس کالم کا مقصد دراصل یہ ہے کہ: اللہ شوق دے تو ادبی رسالے معیاری کتابیں پڑھا کرو۔ کتاب وقت گزاری کا بہترین ذریعہ ہی نہیں حصولِ علم و ادب کا اَہم وسیلہ بھی ہے۔ کتابوں سے بہتر دُنیا میں آپ کا کوئی دوست نہیں۔ مَیں ہمیشہ سے کہتا چلا آ رہا ہوں، لکھتا چلا آ رہا ہوں کہ کتابوں سے دوستی لگایئے، ان کے ورق ورق صفحے صفحے پر بکھرے علم کے موتیوں کو حرزِ جاں بنایئے تھوڑا سا وقت، تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی کفایت شعاری سے خریدی گئی، کتب کے ذریعے بھرا پُرا’’ بُک شیلف‘‘۔ آپ کی زندگی میں یہ سب کچھ ہو تو پھر کس چیز کی کمی ہے؟


میری ’’بُک شیلف‘‘ میں روزانہ کچھ نہ کچھ نئی پرانی کتابوں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے، پرانی کتابیں، کتابوں کے ’’اتوار بازار‘‘ سے گھنٹوں کی محنتِ شاقہ اور زرِ کثیر کے صَرف سے خرید کر اور اپنی پسند کے مطابق انتخاب کر کے بہت خوشی ہوتی ہے۔ دوسری صُورت میں غیر طلبیدہ کتب ’’جناب ناصر زیدی کے ذوقِ مطالعہ کی نذر‘‘ کے الفاظ کے ساتھ وصول کر کے کوفت ہوتی ہے، بہرحال زیادہ تر ’’رطب و یا بس‘‘ کے ساتھ اچھی قابلِ مطالعہ کتب بھی موصول ہو جاتی ہیں، مگر مَیں یہ بات آج تک سمجھ نہیں پایا کہ کتاب دینے والے نے میرے ’’ذوق مطالعہ‘‘ کا یہ تعین کیسے کر لیا کہ مَیں اُن کی کتاب پڑھوں۔ البتہ بعض اچھی کتابوں اور رسالوں کو پڑھتے ہوئے جی چاہتا ہے کہ قارئین کو بھی اپنی اس بھرپور طمانیت میں شریک کروں، جو مجھے حاصل ہوئی یا ہو رہی ہے۔۔۔!

اِنھی دنوں بلکہ ابھی ابھی ایک دو روز پہلے ماہنامہ ’’فانوس‘‘ لاہور کا ایک عظیم و ضخیم ’’علامہ اقبال نمبر1‘‘ ڈاک سے موصول ہُوا۔480 صفحات پر محیط مبلغ 600روپے قیمت کا یہ ’’علامہ اقبال نمبر‘‘ ایک ارمغان ہے، ایک تحفہ ہے، بہارِ جاں فزا کا ایک خنک جھونکا ہے، سرمایۂ ادب اور خصوصاً ادبیاتِ اقبالیات میں گراں قدر اضافہ ہے۔

’’فانوس‘‘1960ء میں ہمارے مرحوم دوست قدیر شیدائی نے جاری کیا تھا۔ مَیں اُس زمانے میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کا طالب علم تھا اور انجمن حمایت اسلام کے ہفتہ وار مجلے ’’حمایتِ اسلام‘‘ میں اپنے نام سے غزلیں، نظمیں اور ’’کالجیٹ‘‘ کے فرضی نامی سے ادبی سرگرمیوں کی رو داد رقم کیا کرتا تھا۔ ادبی حلقوں میں بھی آنا جانا تھا، کہ مَیں خود کالج کی ’’بزم عروجِ ادب‘‘ کا سیکرٹری تھا، اُس زمانے میں کالج کے ہفتہ وار ادبی تنقیدی جنرل اجلاس میں قدیر شیدائی سے شناسائی ہوئی جو تادَمِ آخر برقرار رہی۔ اُنہوں نے اپنے طویل دَور ادارت میں اپنے ماہنامے ’’فانوس‘‘ کے کئی یادگار نمبر شائع کئے۔ تین چار تو ’’عبدالعزیز خالد نمبر‘‘ ہی تھے۔ مجھے ان کے موقر جریدے میں چھپنے کا موقع ملتا رہا، جب مَیں ماہنامہ ’’گُل خنداں‘‘ اور پھر ’’شمع‘‘ بانو، آئینہ، بچوں کی دُنیا کا ایڈیٹر تھا تو اپنی ادارت کے دوران اُن کی تحریریں بھی چھاپنے کا موقع ملا اور ’’ادب لطیف‘‘ جیسے ادبی لیجنڈ جریدے کی پندرہ سالہ طویل دَورِ ادارت میں ان کی اِکا دُکا غزل بھی چھاپی اَور تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز اُن کی دفتر، ’’ادب لطیف‘‘ میں تشریف آوری سے بھی شاد کام ہُوا۔ اُن کے انتقال کے بعد ’’فانوس‘‘ کی اشاعت خاصا عرصہ معطل رہی، پھر یُوں ہُوا کہ محمد شکور طفیل صاحب کی نظر عنایت سے اس تاریخی، یاد گار، ادبی و نیم ادبی و سماجی رسالے کی اشاعت کو بحال کیا گیا۔ قدیر شیدائی کے صاحبزادے مدثر قدیر سے ڈیکلریشن کے معاملات طے کر کے اشاعت باقاعدہ جاری کر رکھی ہے۔ بہت سے عمدہ نمبر شائع کئے جا چکے ہیں۔ مخصوص شعراء کے خصوصی گوشوں کے ساتھ ساتھ ’’بانی نمبر‘‘ اور اب ’’ علامہ اقبال نمبر1‘‘ بِلاشبہ تہلکہ خیز ہیں۔۔۔ ان سب نمبروں اور خصوصی گوشوں کو شائع کرنے کے روح و رواں مُدیر خالد علیم ہیں۔ وہ بہت پڑھے لکھے، عالم فاضل، علم عروض کے ماہر شاعر ہیں۔ اُن کی ادیب اور مُدیر کی حیثیت مسلّم ہے کہ وہ سہ ماہی سیارہ کے شعبۂ ادارت سے مدتوں وابستہ رہے، اب محمد شکور طفیل کی نگاہِ انتخاب نے اُنہیں چُنا اور اپنے چُناؤ کو معیاری منوایا۔۔۔!


زیر نظر شمارہ ’’فانوس‘‘ کے ٹائٹل پر دیئے گئے عنوانات کے تحت کئی معیاری مضامین اس شمارے کی زینت ہیں جن میں ممتاز ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا تجزیہ ’’کاروانِ اقبال۔۔۔ حالیہ پیش رفت‘‘ پروفیسر نور ورجان کی دریافت۔۔۔ اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ ’’تحقیق و ترجمہ کے تحت ازہر منیر کا مضمون ’’مراسلتِ اقبال و منیر کی روشنی میں پروفیسر اکبر منیر کا سفر نامہ ایران‘‘ ڈاکٹر تحسین فراقی کا ’’ایران میں اقبال شناسی‘‘ 1923ء کا ایک گمشدہ باب ’’کلام اقبال، عبدالرزاق حیدر آبادی کی نظر میں‘‘۔ ’’اقبال سے جناح کے نام خطوط میں سیاسی مشاورت‘‘۔ محمد شکور طفیل کے قلم سے اور ’’علامہ اقبالؒ کے سیاسی نظریات‘‘۔ حمیدہ نجم کے 1967ء کے ایک اہم مقالے کی بازیافت، ان سب ’’ہائی لائٹ‘‘ کئے گئے مضامین اَور مقالوں سے قطع نظر ہماری نظر میں سعدیہ حسن کا مضمون ’’اقبال اور منظوم خراجِ عقیدت کی روایت‘‘ بھی بہت اہم ہے۔


اپنے منفرد موضوع کے اعتبار سے بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ اس تحقیقی مقالے میں1977ء کی مرتب کردہ علامہ اقبالؒ پر ہماری ایک کتاب’’بیادِ شاعرِ مشرق‘‘ کا بھی بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔۔۔ یہ شمارہ مشترکہ4،5 اپریل، مئی 2016ء کا ہے اور اس اعلان کا حامل ہے کہ 500صفحے کے اس نمبر کے باوصف ’’علامہ اقبال نمبر2‘‘۔ نومبر 2016ء میں شائع ہو گا، وہ بھی500 صفحوں کا ہو گا اور اس کی قیمت بھی600روپے ہو گی۔۔۔ اس عظیم و ضخیم اقبال نمبر کے لئے خالد علیم اور محمد شکور طفیل بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اتنا اچھا معیاری رسالہ اقبال کے شاہینوں کے لئے مرتب کیا، اقبال شناسوں اور اقبال کے طالب علم کے لئے مرتب کیا بس اغلاط کی خاصی زیادتی نے بے مزا کیا، مثلاً صفحہ220پر ایک شعر:
توڑ ڈالی موت نے بُغربت میں مِینائے امیر
چشم محفل میں ہے اب تک کیفِ صہبائے امیر


پہلے مصرعے میں ’’بُغربت‘‘ کے بجائے صرف ’’غربت‘‘ کافی نہیں؟۔ صفحہ223 پر ایک شاعر کا نام بدرالدین صغیری لکھا گیا ہے جبکہ وہ ’’قیصری‘‘ تھے۔ بدر الدین قیصری جو تاج کمپنی سے وابستہ تھے۔ صفحہ226 پر سطر نمبر دس میں ’’والعلوم قاہر‘‘ لکھا گیا ہے ’’قاہر‘‘ کے بجائے ’’قاہرہ‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ صفحہ228 پر سید بشیر احمد صاحب ’’افگر جالندھری‘‘ لکھا گیا ہے یہ اخگر جالندھری ہونا چاہئے۔صفحہ238 پر نگار سیالکوٹی کے بجائے فگار سیالکوٹی ہونا چاہئے۔ صفحہ241 پر برائے صلاح درج ذیل قلعے کے ساتھ کی جگہ ’’برائے اصلاح درج ذیل قطع کے ساتھ‘‘ ہونا چاہئے تھا۔ صفحہ270پر امین خریں کے بجائے ’’امینِ حزیں‘‘ درکار تھا۔ یہ تو سعدیہ حسن کے ایک مضمون میں اغلاط کا مختصر سا حال ہے باقی کے لئے: ’’قیاس کُن زگلستانِ من بہارِ مَرا‘‘۔۔۔

’’صحیفہ‘‘ مجلس ترقی ادب لاہور کا ترجمان سہ ماہی مجلہ ہے کبھی اس کے ایڈیٹر سید عابد علی عابد جیسے ادبی جن اور ڈاکٹر وحید قریشی جیسے محقق ونقاد ہُوا کرتے تھے اب یہ ڈاکٹر تحسین فراقی، افضل حق قرشی اور محمد ظہیر بدر کی ادارت میں نکل رہا ہے۔ ’’شبلی نمبر‘‘ اور ’’حالی نمبر‘‘ جیسے عظیم و ضخیم نمبروں کے بعد عام شمارہ منظر عام پر آیا ہے۔ شمارہ 222اور223 مشترکہ جولائی2015ء تا دسمبر 2015ء، یعنی پچھلے سال کے چھ ماہ پر مشتمل شمارہ اب 2016ء میں مئی کے مہینے میں شائع ہُوا ہے۔کبھی جناب احمد ندیم قاسمی کے رسالے ’’فنون‘‘ پر خلیل رامپوری نے پھبتی کسی تھی:
ہے یہ بھی خوبیوں میں سے خوبی فنون میں
چَھپتا ہے جنوری میں نکلتا ہے جون میں


اب معاملہ جنوری سے جون کا نہیں رہا تاخیرِ اشاعت پورے سال پر محیط ہو گئی ہے وہ بھی سرکاری ادارے کے جریدے کی جس کی گرانٹ ظاہر ہے حد سے زیادہ ہو گی تبھی تو دس افراد کی مجلسِ مشاورت کا بوجھ بھی برداشت کیا جا رہا ہے۔۔۔ یعنی انتظار حسین] اب مرحوم[ ڈاکٹر محمد عمر میمن۔ شمس الرحمن فاروقی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی۔ محمدسلیم الرحمن۔ امجد اسلام امجد۔ عطاء الحق قاسمی۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ۔ افتخار عارف اور ڈاکٹر نجیبہ عارف۔۔۔ اور ان سب پر بھاری ایک عدد ڈاکٹر تحسین فراقی] دو نمبر افضل حق قرشی اور تین نمبر محمد ظہیر بدر ]نجانے کون؟[


یہ جو تینوں نام مَیں نے گنوائے ان میں ایک افضل حق قرشی کا نام مُلک کے صفحہ اول کے اخبار ’’جنگ‘‘ نے اپنے اَدب کے آدھے صفحے پر پیر9مئی2016ء کے تبصرہ و تعارف کتب کے کالم’’ ہے خبر گرم‘‘ کے تحت افضل حسن قریشی اور پھر اِسی خبر میں آگے چل کر افضل حق قریشی لکھا ہے، یعنی صحیفے کے ایک مُدیر محترم افضل حق قرشی اپنا صحیح نام ’’پڑھے لکھوں‘‘ کو رجسٹر نہیں کرا سکے تو پھر؟۔۔۔ تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ مجلس ادارت کے تین اور مجلس مشاورت کے دس یعنی کُل تیرہ نابغۂ روزگار ہستیوں نے مل کر ’’صحیفہ‘‘ کے ذریعے سات مضامین قارئین کو پڑھنے کے لئے دیئے ہیں۔عنوانات کچھ یُوں ہیں۔
O قاہرہ کی مسجد عمرو۔ مولوی عبدالحق۔
O سردار عبدالحمید نکئی، سیاست میں اخلاق و شرافت کی مثال۔ ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی
O مولانا محمد اسماعیل بھٹی اور ان کے کچھ خطوط۔ زاہد منیر عامر۔
O اقبال اور آرزوئے انقلاب۔ عبدالحق
O پروفیسر حمید احمد خان کی چند اقبالیاتی تحریریں۔ افضل حق قرشی۔
O میر کی فارسی اور اُردو رباعیات۔ ایک مطالعہ۔ حمیرا ارشاد۔
O عبداللہ حسین کی افسانہ نگاری’’فریب‘‘ کے تناظر میں۔۔۔۔۔۔ زاہد حسن

’’صحیفہ‘‘ کے اس عام شمارے کی خاص باتیں ہم نے لکھ دیں باقی آپ خود پڑھ لیں ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے؟‘‘

مزیدخبریں