نوشتہ دیوار کو انگریزی میں the writing on the wall کہتے ہیں اور اس کا پس منظر بابل کی سلطنت کا ایک واقعہ ہے جو انجیل کے باب”Daniel 5“ میں بھی درج ہے۔ یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب تباہی سامنے کھڑی ہو لیکن اندھا ہونے یا آنکھوں پر پٹی بندھے ہونے کی وجہ سے نظر نہ آ رہی ہو۔ واقعہ بہت طویل ہے لیکن اس کا اختصار یہ ہے کہ بابل کے انتہائی ظالم اور فاسق بادشاہ بلشذر (Belshazzar) کو دیوار پر لکھی کسی قدیم زبان میں تحریر (MENE, MENE, TEKEL, UPHARSIN) نظر آتی تھی جس کا ماہرین نے ترجمہ یہ کیا تھا کہ خدا نے بہت سی سلطنتیں بنوائیں، لیکن ظلم و فسق کے بعد انہیں تقسیم در تقسیم کر کے ختم کردیا اور ان پر مخالفین یا دوسروں کا قبضہ ہو گیا۔
امریکہ کے ”وال سٹریٹ جرنل“ اور برطانیہ کے ”فنانشل ٹائمز“ کا شمار سیاسیات اور اقتصادیات کے شعبہ میں دنیا کے معتبر ترین اخبارات میں ہوتا ہے اور ان کی اشاعت لاکھوں میں ہے اور انٹرنیٹ پر کروڑوں لوگ انہیں روزانہ پڑھتے ہیں،یہ عوام اور حکمرانوں کی رائے سازی میں بھی بہت اہم کردار اداکرتے ہیں اور ان سے صرف نظر کرنا ایسا ہی ہے جیسے شتر مرغ ریت میں سر چھپا لیتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن عروج پر پہنچ چکی ہے جس میں لوگ اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں۔ مشہور امریکی جریدہ ”ٹائم“نے فروری 1970ء میں پاکستان کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں اس خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں اگر پاکستان کے اس نصف کو قومی سیاسی دھارے میں اس کا جائز مقام نہ دیا گیا۔ تین ماہ بعد مئی 1970ء میں ”ٹائم“ نے پاکستانی صدر جنرل یحی خان کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا جس میں جنرل یحی خان نے مغربی میڈیا اور خاص طور پر ”ٹائم“ اور ”نیوزویک“ پر شدید تنقید کی کہ یہ پاکستان کے اندرونی سیاسی اختلافات کو کیوں عالمی سطح پر ابھار رہے ہیں۔ یہ وہی مشہور انٹرویو ہے جس میں اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان کسی آئین کے بغیر کیسے چلایا جا رہا ہے تو اس پر جنرل خان نے انگلی سے اپنے دماغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا دماغ ہی پاکستان کا آئین ہے۔ خیر، دو ماہ بعد جولائی اور اگست میں تباہ کن سمندری طوفان کے بعد حالات اور خراب ہو گئے (جس میں لاکھوں لوگ جاں بحق ہوئے) اور پھر دسمبر کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان مکمل طور پر سویپ کر لیا، لیکن جنرل یحییٰ خان نے انتقال اقتدار نہیں کیا اور جس کے نتیجہ میں خانہ جنگی ہوئی اور بالآخر بھارتی مداخلت ہوئی اور جنگ کے نتیجہ میں سقوط ڈھاکہ رونما ہو گیا۔
جس طرح 1970ء میں ”ٹائم“ نے پاکستانی عوام، سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو نوشتہ دیوار پڑھانے کی کوشش کی تھی، اب اسی طرح معتبر ترین امریکی اخبار ”وال سٹریٹ جرنل“ نے بھی ایک اہم مضمون شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جریدہ امریکی اور مغربی حکومتوں کو اس بات سے بھی خبردار کر رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان میں عدم استحکام کے لئے تیار رہیں جن لوگوں کو تاریخ اور حالات حاضرہ میں دلچسپی رہتی ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح امریکہ، برطانیہ اور مغربی طاقتوں نے بار بار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ممالک کو پہلے عدم استحکام سے دوچار کیا اور پھر ان کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ برطانیہ میں بھارتی نژاد وزیراعظم اور امریکہ میں نائب صدر ہیں۔ اگر ہم پچھلی دو تین صدیوں کی تاریخ کا تذکرہ نہ بھی کریں تو حالیہ برسوں میں ”عرب سپرنگ“ کے نام پر مشرق وسطی کے کئی ممالک میں یہی کھیل کھیلا گیا۔ تیونس، لیبیا، الجزائر، مصر، سوڈان، افغانستان، یمن، عراق اور شام وغیرہ میں کہیں براہ راست اور کہیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ ان ممالک میں تباہی کی نئی داستانیں رقم کی گئیں۔ یہ سب پچھلے دس بارہ یا پندرہ سالوں میں ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔ ”وال سٹریٹ جرنل“ نے واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستان میں آرمی چیف ایک طاقتور شخص ہوتا ہے جسے پس پردہ بہت اختیارات حاصل ہوتے ہیں جسے ایک سیاست دان کے ہاتھوں خطرہ ہے اور اس سیاست دان عمران خان کو ماضی ئ قریب تک فوج کا کٹھ پتلی قرار دیا جاتا تھا۔ نوشتہ دیوار اردو زبان میں استعمال ہونے والا عام محاورہ ہے۔اخبار کہتاہے کہ اگر پاکستان کی فوج بکھرتی ہے تو پھر پاکستان بھی نہیں بچے گا۔ میرے نزدیک یہ بہت اہم اور درست وارننگ ہے، سیاسی لڑائی اپنی جگہ لیکن اس میں فوج کے ادارہ کو گھسیٹنے سے پاکستان کی بقا خطرہ سے دوچار ہو جائے گی۔ عمران خان کو اپنی سیاسی لڑائی اپنے مخالف سیاست دانوں کے خلاف لڑنی چاہئے لیکن وہ تو قومی اداروں اور بیرونی طاقتوں سے تعلقات تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔ یہ تو اینٹ سے اینٹ بجا کر پاکستان کو تباہ اور ختم کر دینے کے مترادف ہے۔ ”وال سٹریٹ جرنل“ یہ بھی لکھتا ہے کہ عمران خان کا پیغام بہت واضح ہے کہ اگر میرے لئے نہیں کھیلو گے تو تمہیں ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے وہ ہر حد کراس کریں گے۔ وہ فوج کو بری طرح بدنام کرکے اس انداز میں پسپا کرنا چاہتے ہیں کہ فوج پہلے کی طرح کھل کر عمران خان کے ساتھ ”ایک پیج“ پر آجائے۔ فوج نے غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے لیکن عمران خان اسے غیر سیاسی نہیں بلکہ اپنی پارٹی بنانا چاہتے ہیں۔ اخبار کے خیال میں فوج اگر عمران خان کی بلیک میلنگ کے سامنے سرنڈر کر دیتی ہے تو اس سے ادارہ کمزور ہو کر تباہ ہو جائے گا اور اس کے بعد ملک کی سالمیت کی کوئی گارنٹی نہیں رہے گی۔ ”وال سٹریٹ جرنل“ کے مطابق فوج کے سیاسی کردار پر جائز تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی سالمیت برقرار رکھنے میں اس کا کردار اس سے زیادہ اہم رہا ہے۔ یہ فوج ہی ہے جس نے بھارت، اسرائیل اوردوسرے پاکستان دشمن ممالک سے ابھی تک پاکستان کو بچائے رکھا ہے اور اگر اسے کمزور کر دیا گیا تو نوشتہ دیوار سب کے سامنے ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں 1970ء میں آنکھوں پر بندھی پٹی کی وجہ سے کوئی بھی (سیاست دان اور فوج دونوں) نوشتہ دیوار نہیں پڑھ سکا تھا لیکن اب 2022ء میں ہمیں یہ پٹی آنکھوں سے اتار دینی چاہئے اور ان تمام عوامل کو نیوٹرالائز کر دینا چاہئے جو پاکستان کی سالمیت اور بقا کے درپے ہیں۔
٭٭٭٭٭