خواتین و حضرات مہنگائی ایک قومی اور عالمی مسئلہ ہے یہ مسئلہ ہر ملک اور ہر دور میں رہا ہے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ہر کوئی پریشان ہے اس میں امیر بھی شامل ہیں غریب بھی، ملازمت پیشہ بھی کاروباری حضرات بھی، اشیاءخورد و نوش اور پیٹرول کی قیمتوں کے بڑھنے سے ہر گھر اور ہر فرد پریشان ہے، اس مہنگائی نے جہاں معاشی اور مالی اعتبار سے ہر کنبے کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وہاں اس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر انسانی اخلاق و کردار، گفت و شنید، معاملات اور رویوں اور عادات و اطوار پر بھی بہت گہرا پڑتا ہے۔ اس مہنگائی نے لوگوں کو نفسیات اور اعصابی طور پر بھی پریشان کردیا ہے، البتہ اگر کوئی طبقہ اس مہنگائی اور اس کے اثرات سے محفوظ ہے، بلکہ اس صورت حال کو انجوائے کر رہا ہے، وہ طبقہ دکانداروں، شاپنگ مال والوں، خوانچہ فروش، کریانہ سٹور، سبزی اور پھل فروخت کرنے والے، سائیکل، موٹر سائیکل مرمت کرنے والے، آٹو سروس اور آٹو الیکٹریشن اور اسی طرح کی روز مرہ کی اشیاءو خدمات مہیا کرنے والے ہیں۔
شاید آپ میری اس بات سے اتفاق نہ کریں مارکیٹوں اور گلی محلوں کے دکانداروں میں اس مہنگائی سے خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور ان کی مسرت دیدنی ہے، کسی مارکیٹ میں موجود کریانہ سٹور والے، سبزی اور پھل فروش، گوشت اور چکن بیچنے والے اور اسی طرح کے دیگر دکاندار مہنگائی سے متعلق خبریں، واقعات، معاملات اور لوگوں کے حالات کا ذکر ہنس ہنس کر اور ہاتھ پہ ہاتھ مار کر کرتے نظر آئیں گے۔ مہنگائی کے آجانے سے ان کے جوش و جذبے میں ایک نئی بجلی سی کوند گئی ہے۔
خواتین و حضرات یہ ہم محض زیب داستان کے لیے بیان نہیں کر رہے۔ بلکہ اب جو ہم آپ سے شیئر کرنے جارہے ہیں اس سے ان تمام باتوں کی تصدیق ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر آپ کسی دکان میں جائیں اور ان سے پاﺅ دودھ والا پیکٹ، گھی، آئل یا دال طلب کریں اور اس سے اس کی قیمت دریافت کریں مثلاً اگر وہ آپ کو پیکٹ والے پاﺅ دودھ کی قیمت ساٹھ روپے بتاتا ہے اور آپ اس سے کہتے ہیں کہ یار یہ تو ابھی پرسوں پچپن روپے کا تھا۔ تو وہ دکاندار بلکہ تقریباً ہر دکاندار کے اس سوال کے دو جواب ہوں گے۔ ایک تو وہ یہ ضرور کہے گا اس کی قیمت تو جی بہت پہلے سے بڑھ چکی ہے (”بہت“ کو لمبا کرکے بولتے ہوئے) چاہے وہ ابھی کل ہی بڑھی ہو اس کے ساتھ وہ ایک اور جملہ ضرور اس کے ساتھ جوڑ کر کہے گا۔ ”ابھی تو یہ اور بڑھے گی“ یہ جملہ وہ خوشی، تمسخر، اذیت اور ”ٹچکری“ کے ملے جلے جذبات اور انداز کے ساتھ کہے گا جو گاہک کے جگر میں تیر کی طرح جا لگے گا۔
اس جملے میں شرارت اور انتقام کی بو بھی آئے گی۔ وہ آپ کی پریشانیوں، مجبوریوں اور تکلیفوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اور چسکے لیتے ہوئے اس بات کا اظہار کرے گا، گاہک دکاندار کے اس رویے سے بوجھل قدموں سے دکان سے باہر نکلے گا اسے آپ کی اس اذیت سے ایک گوناں گوں مسرت ہوگی، گویاں آپ کا پریشان ہونا اس کے لیے باعث راحت ہے، پھر وہ اپنے ملازم لڑکے کی طرف داد طلب نظروں سے بھی دیکھے گا اس کے علاوہ دکانداروں نے بدعنوانی اور بے ایمانی کی ایک بڑی دلکش، بے ضرر اور دلچسپ راہ نکال لی ہے۔ وہ اشیاءکی جن پر قیمت درج نہ ہو، یہ تجربہ ہم نے تین دکانداروں کے ساتھ کیا ہے۔ مثلاً اسی پاﺅ دودھ کے پیکٹ پر پینسٹھ(65) روپے طلب کرنے پر آپ اگر کہیں کہ ساتھ والا دکاندار تو ساٹھ روپے کا دے رہا ہے.... تو وہ فوراً کہے گا ”چلیں آپ ساٹھ روپے دے دیں“۔ گویا داﺅ لگ گیا تو ٹھیک ہے ورنہ ایمانداری ہی سہی۔ دکاندار اکثر بعض ڈبہ پیک اشیاءپر اپنی قیمت کی چٹ بھی لگاتے ہیں۔
ہر دکاندار اپنے طور پر اشیاءکی قیمتوں کو اپنی صوابدید کے ساتھ فروخت کرتا ہے۔ اس دوران اس کا گاہک سے رویہ ہتک آمیز حد تک غیر اخلاقی ہوتا ہے زیادہ قیمت کی شکایت پر وہ گاہک کو قہر آلود نظروں سے دیکھے گا اور کاﺅنٹر پر رکھی چیز کو اٹھا کر آپ کو کہیں اور جانے کا مشورہ دے گا۔ اشیاءاور خدمات کے دام بڑھ جانے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ہماری گفتگو میں تلخی، بے رخی اور کسی حد تک بدزبانی کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ کیا خوش اخلاقی سے بولنے پر بھی کوئی اضافی قیمت لگتی ہے یا دل و دماغ اور زبان کو زیادہ مشقت کرنا ہوتی ہے؟
خواتین و حضرات، بعض دکاندار اس قدر خودسر اور بازاری زبان میں ”پھٹے“ ہوتے ہیں کہ ان کا گاہک سے سلوک اس قدر ذلت آمیز ہوتا ہے کہ وہ گاہک کے سامنے ”آقا“ اور گاہک ان کے سامنے ”غلام“ نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ وہ اسے من مانی قیمت ادا کررہے ہوتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ دنوں ہمیں گوشت کی دکان سے قیمہ خریدنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے قصاب سے، جب وہ گوشت کے ساتھ چکنا بھی تول رہا تھا، عرض کیا کہ جناب ہمیں روکھا قیمہ چاہیے۔ اس شخص نے ترازو پر رکھا ہوا چکنائی سمیت گوشت اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور دوسرے گاہکوں سے مخاطب ہوگیا۔ گویا یہ جواب دینے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ میں روکھا قیمہ نہیں دے سکتا۔ یہ دکانداروں کے روکھے پن کی ایک خاص مثال ہے۔
تبسم بھی حیا بھی بے رخی بھی
یہ انداز ستم بھایا بہت ہے
ایک انگریزی کہاوت ہے کہ جو شخص مسکرا نہیں سکتا، وہ دکانداری یا سیل کا پیشہ اختیار نہ کرے اس کے علاوہ دکانداروں میں بقایا پیسے واپس کرنے کی عادت بھی ختم ہوتی جارہی ہے، ایک دو روپوں کو تو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ بعض دکاندار، گولیاں ٹافیاں دے کر چلتا کرتے ہیں۔
پیٹرول کی قیمت بڑھ جانے سے رکشہ ویگن والے موج میں ہیں جن کی ادائیگی یا کرایوں کا کوئی طریقہ، قانون یا ریگولیشن وضع نہیں کیا گیا۔ آپ رکشے والے سے زیادہ پیسے طلب کرنے کا شکوہ کریں تو ہر رکشہ والا یہ ضرور کہے گا.... اتنے پیسے تو فلاں جگہ تک کے بنتے ہیں۔ اس سارے معاملے میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ تمام دکاندار، پھل، سبزی اور مرغی فروش وغیرہ ازخود، گاہک بھی ہیں وہ بھی تو اپنی دکان کے سامان کے علاوہ دیگر اشیاءکے خریدار اور گاہک ہوتے ہیں۔ ان پر بھی تو اس وقت ایسی کیفیت طاری ہوتی ہوگی تو کیا اس امر کے پیش نظر وہ اپنے رویوں پر غور نہیں کرتے جب وہ خود ایک دکاندار کے منصب اعلیٰ پر فائض ہوتے ہیں۔
اس مہنگائی نے گھروں کے افراد اور رشتہ داروں میں فاصلے بھی بڑھا دیئے ہیں۔ جہاں پہلے ایک ماہ میں دو تین مرتبہ ملاقاتیں ہوجاتی تھیں وہاں اب مہینوں بعد ملا جاتا ہے۔ فون، ای میل، وٹس اپ گروپ (whatsApp Group) کے ذریعے ہی تمام باتیں ہوجاتی ہیں۔ گویا
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
اگر ایک بھائی کی فیملی گوالمنڈی میں رہتی ہے اور دوسرا بھائی اڈا سٹاپ یا بحریہ ٹاﺅن رہتا ہے، تو ایک ملاقات کا مطلب چار ہزار روپے پیٹرول کا خرچ یا تین ہزار رکشے کا کرایہ ہے۔ آخر میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ حضور فرماتے ہیں اللہ پاک ایسے شخص پر رحم کرے جو چیز بیچتے، خریدتے ،تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو ایسا نہیں کرتا جس کی مثالیں اوپر دی گئی ہیں وہ رحم سے محروم رہے گا۔ کوئی دکاندار اپنے گاہکوں کو تسلی نہیں دیتا کہ بھائی پریشان مت ہو، انشاءاللہ ، اللہ یہ مشکل وقت بھی ٹال دے گا۔ جیسا کہ سورة الم نشرح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور یقینا اس مشکل کے ساتھ بھی آسانی ہے۔