بطور مسلمان ہم سب کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا نام دین ہے۔ ہم دین کو مذہب کے مطلب میں لیتے ہیں جو دراصل مناسب نہیں ہے۔ دین اپنے وسیع تر معنوں میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کو تسلیم کرنے کو کہتے ہیں یعنی اسلام کا راستہ اپنانا ۔ دراصل اسلام کو ہم نے دینِ مصطفی سے مختص کر دیا ہے۔ حالانکہ دینِ اسلام اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر رسول کے ذریعے اِنسانیت کے لئے بھیجا تھا۔ شریعت موسوی اور شریعت عیسوی بھی اسلام تھے ،مگر جب اِن شریعتوں سے انحراف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کے ذریعے انسانوں کو مکمل طور پر منظم دین دیا۔ میرا یہ مقالہ مذہب یا مذہبوں کے بارے میں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان کے لئے مذہب کو ضروری کیا گیا یا اِنسان نے خود ہی مذہب کی ضرورت محسوس کی ؟ انسا نی نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم انسان میں پیدائشی طور پر مذہبیت کا مادہ موجود تھا جس کو نفسیات دانوں نے Nurotheollgy کا نام دیا۔ یہ بات دل کو بھی لگتی ہے کیونکہ ڈراورخوف کا عنصر ہر ذی روح میں موجود ہوتا ہے۔
جب جنگل میں اچانک آگ لگ جاتی ہے تو خوفناک شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔ انجانی وجہ سے آگ کا لگ جانا قدیم انسان کو خوفزدہ کر دیتا تھا۔ سورج کی روشنی سے نباتات بھی اُگتی تھیں انسان کی خوراک کے لئے۔ جنگل کی آگ سے شکار کئے ہوئے جانور کا گوشت بھی پک جاتا تھا۔قدیم انسان جو جبلّی طورپر مافوق الفطرت سے ڈرتا تھا اُس نے سورج اور آگ کومعجزا ت کا مظہر مان لیا اور یوں اِنسان کی لاشعوری مذہبیت اُس کےُ رجحان میں آگئی۔ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے ہٹ کر ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ سے ہی انسان کسی نہ کسی مذہب دھرم یا دیومالائی CULTS کو کیوں مانتا تھا۔ قدرت کے وہ مظاہر جو اِنسان کو فائدہ یا نقصان پہنچاسکتے تھے اور جن پر انسان کا اپنا بس نہیں چلتا تھا، اُن مظاہر کو انسان نے اپنے سے عظیم مان لیا یعنی اپنے سے زیادہ زور آور سمجھ لیا۔ سورج، چاند ،کڑکتی ہوئی آسمانی بجلی اور طوفان،جان لیوا وبائیں، خوراک دینے والے جانور یا نقصان دینے والے جانور ، آگ اور ٹھاٹھیں مارتے دریاؤں اور سمندروں کا پانی، یہ سب عناصر قدیم انسان کو متاثر کرنے کے لئے کافی تھے۔ قدیم اِنسان معاشرتی اور سماجی طور پر نا پختہ تھا۔اُس وقت کا معاشرہ یا پدریPatriarchal تھا یا مادری (Matriarchal) ہوتا تھا۔ یعنی انسانی قبیلے یا گروہ کی سربراہی مرد کے ہاتھ میں ہوتی تھی یا عورت کے ہاتھ میں۔ اُس معاشرے میں ابھی خاندا نی رشتوں کی پہچان بھی نہ تھی۔ کسی بھی عورت سے کسی بھی مرد کی اولاد ہو سکتی تھی۔ ماں، بیٹی ، اور بہن یا خالہ اور چاچی وغیرہ کی کوئی شناخت نہ تھی۔ کنبے اور خاندان کا ابھی کوئی تصور نہیں تھا، لہٰذا وراثت کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صرف گروہ یا قبیلہ ہوتا تھا جو اِکٹھا رہنے پر اپنی بقا کے لئے مجبور ہوتا تھا۔ ابھی ملکیت کا تصور بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ اُس وقت تمام انسانی جد و جہد صر ف زندہ رہنے کے لئے ہوتی تھی ۔ اخلاقیات کے تصور نے ابھی جنم بھی نہ لیا تھا۔ موت کا مطلب زندگی کا خاتمہ تھا۔ کیا اُسے معلوم تھا کہ موت کا مطلب محض زندگی کا اختتام ہے اور بس ،یا موت کے بعد کوئی اور دنیا بھی ہو گی۔ قدیم انسان اپنے مرُدے کی آخری رسوم ، مُردے کو یا تو آگ میں جلا کر کرتا تھا، یا بہتے پانی میں پھینک کر یا زمین میں دفنا کر یا گوشت خور جانوروں اور پرندوں کی خوراک بناکر کرتا تھا۔
دراصل قدیم انسان کی تمام جدوجہد اور مصروفیت خوف کے گرد گھومتی تھی۔ جنگلی درندوں کا خوف، وباؤں کا خوف، زلزلوں اور طوفانوں کا خوف، آگ سے جل جانے کا خوف ، قحط اور خشک سالی اور پانی کی عدم دستیابی کا خوف، بلکہ بعض مرتبہ پانی کے سیلاب کا خوف۔ اس ارتقائی معاشرے میں انسان کے پاس ابتدائی شعور کی طاقت تھی جو اُس کو دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی تھی۔ اسی اِبتدائی شعور کے زمانے میں قبیلہ کے اندر کوئی نہ کوئی انسان زیادہ ذہین اور سوچ بوجھ والا بھی ہوتا ہوگا۔ بس ایسے ہی کسی انسان نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے ظاہر کیا کہ وہ خوف پیدا کرنے والے عناصر پر قابو پا سکتا ہے بشرطیکہ قبیلے والے اُس کی ہدایات پر عمل کریں ۔خوف سے چھٹکارا پانے کے لئے قبیلے والے کچھ بھی کر سکتے تھے۔ اس ذہین انسان کو قبیلے والے اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے اُس کے پیرو کار بن گئے اور یوں مذہبیت کی ابتداء انسانی معاشرے میں شروع ہو ئی ۔اس ذہین انسان نے اپنے اِرد گرد کچھ پُرسراریت کا تانا بانا بُن لیا ، کچھ پوجا پاٹ کے طریقے ا یجاد کر لئے اور اس طرح اپنے پیرو کاروں کو قائل کر دیا کہ وہ قبیلے والوں کے لئے موت کے بعد کی دنیا بھی آسان کر سکتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جادوگری ہی مذہبیت کی ابتدا بنی۔ آس پاس کے دوسرے قبیلوں میں بھی جادو ٹونے والے آگئے اور وہ پوجا پاٹ کروانے لگ گئے۔ ہر قبیلے کا اپنا اپنا مذہبی نشان (TOTEM) بن گیا۔
مَیں ڈارون کی تھیوری پر بالکل یقین نہیں رکھتا۔ اللہ سُبحان تعالیٰ نے آدمی بطور ایک صنف(Species) اسی طرح ہی پیدا کیاجس طرح اور جاندار پیدا کئے۔ آدمی بھی اللہ تعالیٰ کی ایسی ہی ابتدائی مخلوق ہے جیسے اور چرند، پرند یا نباتات ہیں۔ جس روز اللہ تعالیٰ نے آدمی کو شعور سے نوازا اُس کو انسا ن کا درجہ دے دیا تو وہ آدمی اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں اشرف المخلوقات ہو گیا۔ انسانیت اپنی بہت ہی ابتدائی شکل میں وجود میں آگئی اور پھر مختلف اِرتقائی منازل سے گذرتی ہوئی اس قابل ہو گئی کہ اُسکا لاشعوری جھکاؤ کسی نہ کسی قسم کے مذہب کو ماننے کی طرف ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو اشرف المخلوقات بنا کر انسانیت کی طرف گامزن کر دیا تھا۔انسان میں تجسُس کا قوی مادہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔ یہ تجسس کا عنصر ہی تھا جو اِتنا طاقتور تھا کہ اس کے زیرِ اثر حضرت آدم ؑ نے اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی اور وہ جنت سے نکالے گئے۔ قرآن مجید کے اس اہم ترین بیان کو آپ خواہ علامتی لیں یا حقیقی لیں ،لیکن ربِ کائنات نے آدمؑ کو شعور اور تجسُس کی دولت دے کر زمین پر بھیجا تو اللہ تعالیٰ نے اِنسان کے لئے تسخیرِ کائنات کا سامان پیدا کر دیا۔تجسُس بنیاد بنا تحقیق کا، تحقیق بنیاد بنی جہد اور تجربہ سازی کی جسکے ذریعے انسان نے ایجادیں کیں اور نئی دنیائیں دریافت کیں۔ القران بعض مرتبہ علامتوں سے حقیقت ظاہر کرتا ہے اور بعض جگہ سیدھی سیدھی تاریخی اہمیت کی کہانی سناُ کر انسانی ہدائت کا موجب بنتا ہے۔
اپنے اصل موضوع سے ہٹ کر مَیں نے قرانی حوالے اس لئے دیئے ہیں کہ آگے چل کر مَیں بتا سکوں کہ اِنسان کو مذہب کی ضرورت کیوں ہوئی اور اُس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کتنے ہی مذہب عقیدے اور دیو مالائی قصے (Mythologies) سامنے آئے اور پھر کیا ہوا کہ دنیا کے اکثر انسان صرف ایک خدا کے تصور پر متفق ہو گئے۔ تاریخی حوالوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی اور موسوی دین بھی اوّلاً توحید پر مبنی تھا، بلکہ ہندو دھرم بھی رِگ ویدکے مطابق توحید(Monotheism) پر ہی موقوف رکھتا تھا۔ دیوی، دیوتا، شرک اور بت پر ستی تو آریائی برہمنوں میں کوئی 2500 سال قبل مسیح سے شامل ہوئے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ وسط ایشیا سے ہجرت کر کے سندھ تہذیب کے بُت پرستوں کے ساتھ آمیزاں ہوئے۔ سوشل سائنسدان کہتے ہیں کہ انسان کے دماغ کا حجم تمام جانوروں سے بڑا ہے اس لئے جبلّی طور پرانسان اچھے اور بُرے کی پہچان میں دلچسپی لیتا رہا ہے۔ انسانی زندگی میں اخلاقیات کی ہمہ گیریت کا تصور بھی مذہبوں نے دیا ہے۔ کوئی سا بھی مذہب دیکھ لیں۔ وہ معاشرے میں توازن رکھنے کے لئے اخلاقیات کی تلقین کرتا ہے۔ چوری، حق تلفی، بہتان تراشی ،زنا،جوأ،بھتہ خوری، غبن، بدعنوانی اور وطن فروشی کو ہر مذہب بد اخلاقی اور بدکِرداری سمجھتا ہے۔ جتنے بھی مستند مذاہب ہیں وہ رشتوں کا تقدّس بھی مقرر کرتے ہیں۔ ابتدائی معاشرے میں جب انسان ابھی مہذب نہیں تھا، رشتوں کی حرمت کا کوئی معیار نہ تھا۔ ہر عورت صرف عورت تھی خواہ وہ ماں تھی یا بیٹی تھی۔ Universal اخلاقیات کا تصور مذہب نے دیا۔ لفظ مذہب تہذ یب سے نکلا ہے اسی لئے ہم اسلام کو مذہب کے نام سے نہیں پکارتے ،بلکہ دین کہتے ہیں۔ مذہب نے ہی انسانی تہذیب کو متاثر کیا ۔ تہذیب ذریعہ بنتی ہے۔ اخلاق اور کِردار سازی کا ۔ جتنے بھی بڑ ے مذاہب ہیں، وہ اخلاقیات کا ہمہ گیر سبق دیتے ہیں ۔
دینِ اسلام تمام مذاہب میں ممتاز اپنے عقیدے کی وجہ سے ہے۔ مسلمان اللہ کی وحدت پر، اللہ کے رسولوں اور نبیوں پر ، ملائیک پر اور اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کُتب پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات کہ ہم مسلمان یومِ حساب پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یومِ حساب پر ہم مسلمان جس طرح یقین رکھتے ہیں وہ دوسرے مذاہب میں نہیں ہے۔ یہودی تو اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ وہ پہلے ہی بخشے ہوئے ہیں ،جبکہ مسیحی یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسٰی ؑ نے اپنی قربانی دے کر اپنے تمام پیرو کاروں کو بخشوا لیا ہے۔ ہندوؤں ، بدھسٹوں اور آتش پرست پارسیوں کا عقیدہ یوم الحساب کے بارے میں بالکل مختلف ہے۔ دینِ اسلام میں یوم حساب اصل یومِ حساب ہے۔ کسی کی بھی بخشش اُس کے اعمال پر منحصر ہے ۔یومِ حساب کا یہ ہی تصور ہم مسلمانوں کو گناہوں اور بُرائیوں سے دُور رکھ سکتا ہے، لیکن صد حیف کہ اتنے مکمل دینِ فطرت کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت بد کرداری اور عصیبت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ مذہب جو ہم انسانوں کی روحانی تسکین کا باعث بنتا ہے وہ ہم مسلمانوں کو خونریزی اور فساد میں مبتلا کر گیا ہے۔ مذہبیت ہمیشہ انسان کی ضرورت رہے گی خواہ وہ اچھے کاموں کے لئے ہو خواہ وہ باہمی خون خرابے کے لئے ہو جیسا کہ بد نصیبی سے ہم مسلمانوں میں فی الوقت جاری ہے۔ جتنا سادہ ہمارا دین ہے اُس کو مسلکوں نے، مختلف فقہا نے، اَن گنت مفّسروں نے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ہم نے دین کو مذہب بنا کر رکھ دیا ہے۔