ایک بہترین افسر نبیل اعوان کو چیئرمین پی اینڈ ڈی پنجاب کی اہم ترین پوسٹ سے ہٹا کر انہیں صوبے کی سیاسی حکمران الیٹ کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ ہمیں قانون ضابطے کو پسند کرنے والے افسروں کی ضرورت نہیں، مگر وفاقی حکومت نے چند ہی ہفتوں بعد اسے پورے پاکستان کے افسروں کا افسر یعنی وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ لگا کر اس کی صلاحیتوں اور ضرورت کا اعتراف کر لیا ہے، پنجاب میں چیف سیکرٹری زاہد زمان،ایڈیشنل چیف سیکرٹری احمد رضا سرور، چیئرمین پی اینڈ ڈی بیرسٹر نبیل اعوان کی ٹرائیکا بہترین کام کر رہی تھی،گڈ گورننس کم از کم انتظامی معاملات میں تو نظر آ رہی تھی، مگر سیاسی الیٹ کسی سے نو سننا ہی نہیں چاہتی،اسے قواعد و ضوابط کی بجائے اپنی من مرضی چاہئے ہوتی ہے حالانکہ وہ سرکاری قواعد و ضوابط کو سمجھے تو یہ اس کے لئے بہتر ہوتا ہے۔بیرسٹر نبیل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے گریڈ22 کے افسر ہیں،گریڈ22سے اوپر کوئی گریڈ نہیں اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے بڑا کوئی افسر نہیں،انکی صلاحیتوں پر کسی مخالف کو بھی شک نہیں، مگر اس اچھے افسر کے ساتھ پنجاب حکومت نے اچھا سلوک نہ کیا،بیرسٹر نبیل انتظامی صلاحیتیں رکھنے کے ساتھ ساتھ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف اور سابقہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے بھی انتہائی معتمد افسر گردانے جاتے ہیں، شریف فیملی کے قریبی سمجھے جانے کی وجہ سے جب فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو نیب نے گرفتار کیا تھا تو اس وقت نبیل اعوان بھی اسی وجہ سے نیب کی تحقیقات کا سامنا کرتے رہے تھے۔
نبیل اعوان نے اپنی اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں، دیانت داری اور شاندار انتظامی مہارت کی بدولت سول سروس میں ایک منفرد مقام بنایا ہے اور اپنے کیریئر کے مختلف ادوار میں اہم انتظامی عہدوں پر خدمات انجام دیں اور ہمیشہ میرٹ، شفافیت اور اچھی گورننس کو ترجیح دی، وہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دفتر میں ایڈیشنل سیکرٹری، وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ پی ایس او اور ایڈیشنل سیکرٹری اسی طرح پنجاب میں وزیراعلیٰ حمزہ شہباز، گورنر پنجاب کے ساتھ پرنسپل سیکرٹری اور مختلف صوبائی محکموں کے سیکرٹری بھی رہے، ان کا شمار ان افسروں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز میں نبھائیں بلکہ نظام کو موثر بنانے کے لئے مثبت اصلاحات اور جدید انتظامی طریقہ کار کو بھی متعارف کرایا،سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا عہدہ پاکستان کی بیوروکریسی میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے وفاقی سول سروس کی پالیسی سازی، افسروں کی ترقی اور تعیناتی کے اہم فیصلے ہوتے ہیں، نبیل اعوان جیسا ویژن رکھنے والا اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل افسر اس منصب پر آنا اس بات کی ضمانت ہے کہ شفافیت، میرٹ اور کارکردگی کو مزید فروغ ملے گا۔ان کی شخصیت کا خاص پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ایک دور اندیش، معاملہ فہم اور ٹیم ورک پر یقین رکھنے والے ہیں،ان کا اسلوبِ کار افسروں کے لئے حوصلہ افزائی اور رہنمائی کا ذریعہ بنتا ہے، توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن مزید فعال اور موثر ہو گا اور پاکستان کی سول سروس میں اصلاحات اور پیشہ ورانہ ترقی کے نئے در وا ہوں گے، بلاشبہ نبیل اعوان کی تعیناتی پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کے لئے ایک خوش آئند اور مثبت پیش رفت ہے، ان کی خدمات اور ویژن آنے والے دِنوں میں بیوروکریسی کے معیار کو مزید بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
مرکز اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہونے کی وجہ سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے،ایسے ہی حالات میں،آپ کو ایک سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور دور اندیشی کے حوالے سے واقعہ بتاتا ہوں،دوہزار آٹھ سے تیرہ میں وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی،اس دوران پنجاب میں ایک جج خواجہ شریف پر ان کے گھریلو ملازم نے حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیا تو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سیکریٹیریٹ کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ یہ حملہ اس وقت کے صدر آصف زرداری نے کرایا ہے،اس کی انکوائری کرائی گئی تو یہ الزام غلط اور صرف سیاسی الزام تراشی نکلا،اس پر اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ اس الزام تراشی پر اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر توقیر شاہ کو معطل کر کے انکوائری کرائی جائے،وہ ڈاکٹر توقیر شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرا کے انہیں گرفتار کرنے کا پلان بنائے ہوئے تھے جبکہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف ایسا کوئی بھی ایکشن نہیں چاہتے تھے، اگر اس وقت کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اس وقت کے وزیر داخلہ کی بات مانتے تو ملک کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں محاذ آرائی بڑھ سکتی تھی، مگر انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو اعتماد میں لے کر ایسی کسی بھی کارروائی کا راستہ روک دیااور یوں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی دور اندیشی اور تحمل کی وجہ سے دونوں جماعتوں میں یہ محاذ آرائی ٹھنڈی ہو گئی۔
پاکستان میں وفاقی سطح پر بیورو کریسی کے ڈھانچے میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ”افسروں کا افسر“کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وفاقی ملازمین کے تقرر، تبادلے، ترقی اور سروس اسٹرکچر سے متعلق سب سے اہم ادارہ ہے، وفاقی سیکرٹریز سمیت تمام اعلیٰ سول افسروں کے کیریئر معاملات کا اختیار اسی ڈویژن کے پاس ہوتا ہے، اسی بنا پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بیوروکریسی میں سب سے طاقتور اور موثر سمجھا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن بھی بہت اہم ہوتا ہے مگر اسے افسروں کا افسر نہیں کہا جا سکتا، 70ء کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے اس وقت سیکرٹری کابینہ زیادہ بااختیا راور موثر یا افسروں کا افسر کہلاتا تھا اور اسے وفاق کا چیف سیکرٹری بھی کہا جاتا تھا اور اس پوسٹ پر سینئر موسٹ افسر کو ہی لگایا جاتا تھا،مگر بعدازاں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اپنے کاموں اور عہدہ کی وجہ سے افسروں کے افسر کہلانے لگے۔اب بھی اگر جائزہ لیا جائے تو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ،پی اے ایس، سیکریٹیرٹ گروپ اور پی ایس پی سمیت دیگر سروسز کے گریڈ20کے افسروں تک بلا شرکت غیرے مکمل اتھارٹی ہیں،وہ جس کو جب چاہیں معطل کر سکتے ہیں،اس کے خلاف انکوائری شروع کرا سکتے ہیں، جبکہ گریڈ21اور 22 کی اتھارٹی گو وزیراعظم ہیں،مگر ان کے تمام معاملات بھی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ہی وزیراعظم تک پہنچتے ہیں،کچھ لوگ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو افسروں کا،،مائی باپ،، بھی کہتے ہیں، براہِ راست افسروں کے کیریئر پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بیورو کریسی کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کی سول بیورو کریسی ایک پیچیدہ لیکن مضبوط ڈھانچے پر مشتمل ہے جو ریاستی نظام کو چلانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے،اسے بیورو کریسی کا دل بھی کہا جاتا ہے، ایک جملے میں کہا جائے تو یہ ڈویژن بیوروکریسی کی زندگی اور مستقبل کا تعین کرتا ہے، سول سروس رولز اور سروس اسٹرکچر میں کوئی بھی تبدیلی ہو تو اس کا مسودہ بھی یہ ڈویژن تیار کرتا ہے، بیورو کریسی کے اندر کارکردگی جانچنے کا نظام بھی اسی ڈویژن کے تحت چلتا ہے۔
٭٭٭٭٭