راوی عبور کرتے ہی شاہدرہ جنکشن آتا ہے، لاہور سے سیالکوٹ ریلوے لائن تاریخی حیثیت کی حامل ہے، لاہور اور کراچی کیلیے بھی گاڑیاں نکلتی ہیں 

Sep 15, 2025 | 10:41 PM

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:249
لاہور۔ سیالکوٹ لائن 
لاہور سے سیالکوٹ ریلوے لائن بھی پاکستان کی ایک بہت ہی اہم اور تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ یہ نہ صرف سیالکوٹ جیسے صنعتی شہر اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی جائے پیدائش کو جاتی ہے بلکہ اس کے راستے میں انتہائی تاریخی نوعیت کے شہر اور مقامات بھی آتے ہیں جہاں بہادری کی وہ داستانیں رقم کی گئیں جن کو دیکھ اور سْن کر نہ صرف پاکستانی بلکہ غیر ملکی بھی عش عش کر اٹھے ہیں۔ چلیں آج اس لائن پر نکلتے ہیں۔
لاہور سے یہ لائن مشرق کی طرف جاتی ہے اور تقریباً پاکستان ہندوستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ ہی سیالکوٹ شہر کو نکل جاتی ہے۔ دونوں شہروں کے بیچ کا فاصلہ 108کلومیٹر ہو گا۔ اس لائن پر نہ صرف مقامی پسنجر گاڑیاں چلتی ہیں بلکہ سیالکوٹ سے براہ راست لاہور اور کراچی کے لیے بھی ایکسپریس گاڑیاں نکلتی ہیں۔
لاہور سے سیالکوٹ کی طرف جاتے ہوئے دریائے راوی کو عبور کرتے ہی شاہدرہ جنکشن آ جاتا ہے۔یہاں سے سیالکوٹ کو جانے والی لائن نکلتی ہے۔ جو نارنگ منڈی اسٹیشن سے ہوتی ہوئی نارووال اسٹیشن پر جا رکتی ہے۔ اس لائن پر کچھ قابل ذکر مقامات یہ ہیں۔
نارووال
نارووال سیالکوٹ کا ایک بڑا ہی جانا پہچانا قصبہ اور ضلع ہے۔ یہ ایک ریلوے جنکشن بھی ہے جہاں سے ایک گاڑی وزیرآباد کی طرف جاتی ہے۔ اسٹیشن کی نئی عمارت حال ہی میں تعمیر ہوئی ہے اور بے حد خوبصورت ہے۔ اس میں دور جدید کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ یہ اسٹیشن مقامی مسافروں کے علاوہ سکھ یاتریوں کو گوردوارہ کرتار پور تک لے جانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ 
نارووال ویسے تو کئی حوالوں سے جانا جاتا ہے  یہ اْردو کے عظیم شاعر  فیض احمد فیض کی جنم بھومی ہے، ہندوستان کا معروف اداکار دیوآنند بھی اسی مٹی کا سپوت تھا۔ نامور گلوکار ابرار الحق کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ ابرار الحق نے یہاں مستحق افراد کے لیے مفت طبی سہولت فراہم کرنے کے لیے ایک بہت بڑا اور جدید ترین ہسپتال بھی بنایا ہے جس کے ساتھ ہی ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس ہسپتال اور کالج میں پاکستان بھر سے طبی ماہرین آتے ہیں اور رضاکارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کر کے اس کارِ خیر میں حصہ لیتے ہیں۔نارووال ضلع  میں 3تحصیل ہیں۔ یہاں یونیورسٹی آف نارووال کے علاوہ کچھ سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں۔
نارووال کے بالکل قریب ہی یعنی 17 کلومیٹر دور سکھوں کا دوسرا مقدس ترین مقام، گوردوارہ کرتارپور صاحب ہے (جس کا ذکر پچھلے صفحات پر بھی کیا جا چکا ہے) جو پاکستان ہندوستان کی سرحد سے صرف 4 کلومیٹر دور ہے۔ حکومتِ پاکستان نے 44 ایکٹر احاطے اور وسیع و عریض عمارتوں پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ بنا کر سکھوں کو خوبصورت تحفہ دیا ہے۔ ہندوستان کی سرحد سے یہاں تک پہنچنے کے لیے ایک راہداری بھی بنائی گئی ہے جہاں سے سکھ یاتری دن بھر گوردوارے کی زیارت اور عبادت کے لیے پاکستان کے اندر آتے ہیں اورسر شام اسی راہداری سے واپس ہندوستان چلے جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں