مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:20
رشید کا حمید؛
میرے دادا اور دادی حمیدہ بیگم(میری دادی اس زمانے کے لحاظ سے پڑھی لکھی تھیں کہ انہوں نے 5 جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ اعلیٰ درجہ کی گھریلو خاتون تھیں جن کے لئے خاوند کی بات حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ خانہ داری اور بچوں کی تربیت ان کی اولین ترجیح تھی۔ وہ خوددار اور نظم وضبط کی پابند تھیں۔میری 2 پھوپھیوں اور چچا کی شادی پاکستان بننے کے بعد ہوئی۔ مجال ہے کسی سے ایک ٹکا بھی ادھار لیا ہو۔ وہ 1989ء میں مسلم ٹاؤن میں انتقال کر گئیں اور مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں ہی دفن ہوئیں۔میرے خاندان کے بہت سے افراد اس قبرستان میں ابدی نیند سوئے ہیں۔(انا للہ و انا اللہ راجعون) میرے دادا دادی کو اللہ نے 4بار اپنی رحمت(بلقیس، نسیم، انور، محمودہ) کے روپ میں نواز چکا تھا اب پانچویں بار انہیں اللہ سے امید تھی کہ بیٹا عطا کرے گا۔ میرے دادا اپنے گورے افسر کی کسی بات کو ضد بنا کر اعلی تعلیم کے لئے انگلستان جا چکے تھے اور دادی کو ہندوستان ہی چھوڑ گئے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں 27ستمبر 1927 ء کو حمیدہ بیگم کے بطن سے چاند سا بیٹا پیدا ہوا جس کانام عبدالحمید رکھا گیا۔ یہی میرے ابا جی(والد) ہیں۔
یہ خبر جب دادا تک دیار غیر پہنچی ہوگی توانہوں نے خوشی کا یہ موقع کیسے گزارا ہوگا تصور بھی ممکن نہیں۔ یہاں اپنے دیس میں خاندان نے اس خوشی کے موقع پر اُس دور کے رواج کے مطابق بتاشے بانٹے گئے ہوں گے اور دروازے کی چھوکھٹ پر ینم کے پتے لٹکا کر یہ اعلان کیا ہو گاکہ اس گھر میں نیا مہمان آیا ہے۔ یقیناً خوشی کے اس بڑے موقع نے میرے دادا کی واپسی کے انتظار کی شدت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہو گا۔ اگلے سال کے آغاز میں میرے دادا انجینئرنگ کی ڈگری اعزاز کے ساتھ لئے وطن واپس لوٹے تو یقیناً ان کی خوشی دیدنی اور دو آتشہ ہو ئی ہوگی۔ تقریباً 1 سال کی عمر کے اکلوتے بیٹا عبدا لحمید کو بھی باپ کا انتظار ہو گا کہ خون کے رشتے خون کا انتظار شدت سے کرتے ہیں۔ اس ملاپ کے احساس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ بقول بابا جی؛”رشید جب ولایت سے واپس سجان پور ریلوے سٹیشن پہنچا توسارا قصبہ ہی اسے خوش آمدید کہنے امڈ آیا تھا۔ کیا ہندو، کیا مسلمان۔حمید میری گود میں تھا۔حمید کو بانہوں میں جکڑ کر رشید کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔ دل میں وہ اپنے اللہ کا یقیناً شکر ادا کر رہا ہو گا کہ اللہ نے اسے دوھری خوشی سے نواز دیا تھا۔“ اس دور میں گاؤں والوں کے لئے یہ فخر کی بات تھی کہ ان کے قصبہ کا ایک بچہ ولایت سے اعزاز کے ساتھ ڈگری لے کر آیا تھا۔ وہ محبت، پیار، خلوص اور دید مرید کا زمانہ تھا۔ خوشیاں بھی سانجھی اور دکھ بھی سانجھے تھے۔ یہی ہندوستان کے معاشرے کی بڑی خوبی تھی۔اس کے بعد بھی ان دونوں کے ہاں 2 اور رحمتیں (فرخندہ اور نشاط، میری پھوپھیاں)اتریں اور1 بیٹا جاوید رشید ملک۔میرے اکلوتے چچا۔
4 لڑکیوں کے بعد لڑکا پیدا ہوا تو اس کی ناز برداری کے لئے بابا جی غلام مرتضیٰ کے علاوہ ملازمین بھی تھے۔ ابا جی بتاتے؛”کئی بار میں رفع حاجت کے بعد بھاگ اٹھتا تو ملازم لوٹا لئے پیچھے دوڑتے رہتے کہ چھوٹے صاحب کہیں رکیں تو صاف کیا جا سکے۔“ اکلوتے ہو نے کے ناطے سب کے یارے اور بابا جی کے راج دلارے تھے۔بقول ابا جی؛”بیٹا! بابا جی مجھ سے اس قدر لاڈ کرتے کہ پڑھائی بھی نہ کرنے دیتے تھے کہ پڑھ کر نوکری تھوڑی کرنی ہے۔ سارے ناز اٹھاتے۔ وہ شاندار دادا تھے۔“(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔