سیدنا خالدؓ اس قدر آزاد طبیعت کے مالک تھے کہ سیدی رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے علاوہ کسی اور کے لیے ان کو سنبھالنا ممکن ہی نہ تھا۔اس بات سے اندازہ کیجیئے کہ ایک موقع پر عراق کی ایک جنگ میں فتح کے بعدجب آپؓ مرکز کی طرف لوٹ رہے تھے، تو حج کا موقع آگیا۔ سیدنا خالدؓ نے حج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس میں بہت خطرہ تھا ،کیونکہ مسلمان فوجیں رومی اور ایرانی فوجوں سے عراق میں برسرپیکار تھیں، اور سپہ سالار ان سے دور ہونا خطرناک ہوسکتا تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ اسوقت خلیفہ تھے اور سیدنا خالدؓ نے ان سے حج کی اجازت بھی نہیں لی تھی۔ لیکن خالدؓ خطرات مول لینے والے شخص تھے۔ انہوں نے پورے لشکر کو ’’حیرہ‘‘ کی طرف روانہ کیا اور بغیر کسی کو بتائے چند ساتھیوں کے ہمراہ انتہائی خاموشی اور سرعت سے مکہ پہنچ گئے اور حج اداکیا۔ آپؓ نے اپنے تئیں بہت رازداری سے یہ حج ادا کیا اور مسلمان لشکر کو بھی پتا نہ چلا کہ خالدؓ چند روز کے لیے غائب ہیں۔ آپؓ خاموشی سے حج کیلئے گئے بھی اور واپس بھی لوٹ آئے،لیکن جب اپنے لشکر میں واپس پہنچے توایک قاصد خلیفہ کا خط لے کر آیا اور اس خط میں انہیں بڑے پیار سے ڈانٹا گیا تھا کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا!
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 4 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خالد بن ولیدؓ جیسے شاہینوں کو قابو کرناکوئی آسان کام نہ تھا۔ حضورﷺ بھی آپؓ سے بہت درگزر فرماتے تھے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیدنا خالدؓ کوبہت جلال اور ہیبت عطا کی گئی تھی اور آپؓ سے امت رسولﷺ کی ایک غیر معمولی ڈیوٹی لینا مقصود تھا۔
سیدنا خالدؓ اس طرح کے بہت سے کام کرتے تھے کہ جن پر لوگوں کو اعتراض ہوتا ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ ہمیشہ لوگوں کی شکایات پر ان سے درگزر کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ سیدنا خالدؓ کو معزول کردیا جائے۔ حضرت ابو بکرؓ کا جواب یہی ہوتا کہ جس تلوار کو اللہ نے دین کی سر بلندی کیلئے بے نیام کیا ہے، میں اس کو واپس نیام میں نہیں ڈال سکتا۔ یہی فرق ہے ایک عام سپہ سالار اور ایک عظیم سپہ سالار میں۔سیدنا خالدؓ ایک عظیم سپہ سالار تھے، اور اسی نسبت سے سیدی رسول اللہﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ ان کا خاص لحاظ بھی کرتے۔
فتح عراق کی خوشخبری جب سیدنا ابوبکرؓ تک مدینے میں پہنچی، تو آپؓ نے مدینہ میں اعلان کروایا کہ’’ مبارک ہو! تمہارے شیرنے ایرانی شیرکو زیر کرلیا۔ مائیں قیامت تک خالدؓ جیسا بیٹا پیدا نہیں کرسکتیں!‘‘
یہ وہ وقت تھا کہ جب حضرت ابو بکرؓ نے شام میں بھی مہم جوئی شروع کردی تھی۔مسلمان دستوں کو یہ حکم تھا کہ صرف جاسوسی کریں ،زیادہ آگے تک نہ جائیں اورجہاں تک ممکن ہو تصادم سے گریز کریں۔لیکن جب حضرت خالدؓ کے کارناموں کی خبر مسلمانوں کو پہنچی تو قدرتی طور پر شام میں مسلمان کمانڈروں میں بھی کوئی معرکہ سرانجام دینے کا ولولہ پیدا ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے وہ دستے کہ جو شام گئے تھے،رومیوں کے گھیرے میں آگئے۔ شام اس وقت بازنطینی سلطنت کاصوبہ تھا کہ جسکا مرکز قسطنطنیہ تھا۔حضورﷺقسطنطنیہ کی فتح کی بشارت بھی دے چکے تھے۔ آپﷺ کے مطابق جو فوج اسکو فتح کرے گی وہ جنت میں جائے گی اور جو امیر اسکو فتح کرے گا وہ جنتی ہوگا! لہذا جس طرح مسلمانوں کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ وہ ایران پر قبضہ کریں گے، اسی طرح مسلمانوں کو یہ بھی یقین تھا کہ وہ بازنطینی سلطنت پر بھی قبضہ کرلیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے دونوں محاذوں پربیک وقت لشکر روانہ کیے۔ خالدؓ اس وقت عراق میں تھے۔وہ مسلمان کہ جو شام گئے تھے، دشمنوں کے گھیرے میں آگئے اور انہیں کمک کی ضرورت تھی۔ تب سیدنا ابو بکرؓ نے خط کے ذریعے سیدنا خالدؓ کو حکم دیا کہ عراق کا محاذ دوسرے صحابہؓ کے حوالے کریں اور شام میں محصور مجاہدین کی مدد کیلئے روانہ ہوجائیں۔ سیدنا خالدؓ کو جب یہ خط ملا تو انہوں نے پھر ایسا کام کیا کہ جو جنگی حکمت عملی کے تحت ناممکنات میں سے تھا ۔ کوئی جنگی حکمت عملی کا ماہر یا سپہ سالاروہ کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
عر اق سے شام جانے کے دو باقاعدہ راستے تھے۔ ایک راستے پررومی قلعے بنے ہوئے تھے اور وہاں سے بغیر جنگ کے گزرنا ممکن نہ تھا۔ دوسرا راستہ بہت طویل تھا اور وہاں سے شام کے مجاہدین تک پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگ جاتا۔ ایک تیسرا راستہ ریگستان سے ہو کرجاتا، مگر یہ راستہ کوئی بھی استعمال نہ کرتا، کیونکہ یہ انتہائی خطرناک تھا۔کوئی بھی فوج یا قافلہ اس راستے سے گزر نہ سکتا تھا،کیونکہ اس راستے میں پانی کا ملنا محال تھا۔گرمی میں راستہ بھولنے کا اندیشہ بھی تھا اور بھٹک جانے کی صورت میں موت یقینی تھی۔سیدنا خالد بن ولیدؓ نے اسی خطرناک راستے سے گزرنے کا فیصلہ کرلیا، اور پھر وہ کام کیا کہ جوعرب کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ ایک بوڑھا عرب کہ جو کئی برس پہلے اس راستے سے گزرا تھا، ا سکو فوج کا رہنما یا گائیڈ بنا کرپوری فوج لیکراس ریگستان میں داخل ہوگئے۔کئی روز کی شدید مسافت کے بعد کہ جس میں دھوپ کی شدت سے وہ بوڑھا عرب بھی نابینا ہوچکاتھا، کہ جس کے باعث پوری مسلمان فوج کے تباہ ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، آپؓ حیرت انگیز طور پر بالآخر شام جا پہنچے۔خالدؓ کو ایمان کی حد تک یقین تھا کہ یہ ریگستان انکا راستہ نہیں روک سکے گا۔
سیدنا خالد کے پرچم پر عقاب بنا ہوا تھا۔وہ شام میں جب داخل ہوئے توجس وادی سے گزر کر گئے،وہاں اپنا پرچم نصب کرگئے۔ آج تک اس وادی کو ’’ثنیۃ العقاب‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی عقاب والی پہاڑیاں۔ سیدنا خالدؓ کے انتقال کے کئی سو سال بعد تک بھی وہ پرچم وہاں نصب رہا۔ عباسی خلیفہ معتصم جب اس علاقے سے گزرا تو کسی نے اس کو وہ جھنڈا دکھایا کہ جو قلعے پر لگا ہوا تھا۔ اسکو بتایا گیا کہ یہ وہ جھنڈا ہے کہ جو خالدؓ نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا ، تو خلیفہ اسی جگہ پر اتر ا، اس جھنڈے کو بوسہ دیا اور اپنی تمام فوج کو حکم دیا کہ جو کوئی بھی اس علاقے سے گزرے ،اس جھنڈے کے احترام میں با ادب پیدل گزرے۔اسکے بعد جب مسلمانوں کا زوال ہوا، تو وہ جھنڈا بھی اپنی جگہ سے اکھڑ گیا۔ یہ خالد بن ولیدؓ کا وہ شاندار کارنامہ تھاکہ جو تاریخ اسلام کے اوراق میں صدیوں تک سنہرے حروف سے لکھا گیا۔(جاری ہے )
حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط 6 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں