خیبرپختونخوا کے سیاستدانوں میں صرف تین سیاستدان ایسے ہیں جن کی نہ صرف سیاسی مخالفین بھی تعریف کرتے ہیں بلکہ ان کے سیاسی اصول دوسرے سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ان میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق ،سردار مہتاب احمد خان اور صاحبزادہ پیر صابر شاہ جنہوں نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اوراقتدار کو کبھی ترجیح نہ دی ،اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے ۔نظریے اور اقدار کی سیاست کی وجہ سے پیر صابر شاہ کو صوبے سمیت ملک بھر میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔شرافت ،ملنساری اور عاجزی کے اوصاف پیر صابر شاہ کو اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں ملے ہیں ۔
چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے ۔عام لوگوں سے اس طرح ملتے ہیں کہ ایک ملاقات کے بعد ملنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں ۔سیاست میں 31سال کا عرصہ ہو گیا ۔مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا آج تک سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کی ۔اگر کوئی اصولی سیاست سیکھنا چاہتا ہوتو سریکوٹ ہری پور جا کر پیر صابر شاہ سے اصولی سیاست سیکھے ۔پیر صابر شاہ صوبے میں واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے طویل سیاسی کیریئر میں کبھی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی ۔ان پر سیاسی زندگی میں ایک ایسا سخت اور کٹھن وقت بھی آیا جب ایک طرف اقتدار ،وزارت ،مراعات اوردوسری جانب جیل کی صعوبتیں ،مشکلات اور سختیاں تھیں، اس دوران فیصلہ مشکل تھا ،لیکن پیر صابر شاہ نے ہر قسم کی مراعات اور اقتدار کی آفر کو ٹھکراتے ہوئے پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور اپنے قائد محمد نواز شریف کے ساتھ وفا کی وہ لازوال داستان رقم کی جس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی منتخب حکومت کا خاتمہ کیا اس وقت پیر صابر شاہ مسلم لیگ(ن)صوبہ خیبرپختونخوا کے صدر تھے۔صوبے میں اکثر یت مسلم لیگ(ن)کے رہنماؤں ،ایم این ایز ،سینیٹرز اور ایم پی ایز محمد نواز شریف کا ساتھ چھوڑ کر مسلم لیگ ہم خیال میں شامل ہو گئے۔محمد نوازشریف اور ان کے خاندان سے بیوفائی کی،تاہم شرافت کے پیکر پیر صابر شاہ واحد شخص تھے جنہوں نے نہ صرف محمد نواز شریف اور مسلم لیگ (ن)کا ساتھ دیا ،بلکہ بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کو خیبرپختونخوا بلا کر محمد نواز شریف کی رہائی کے لئے پہلا جلسہ پشاور میں کیا اور اعلان کیا کہ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف آخری دم تک لڑیں گے ۔اسی طرح محمد نواز شریف کی رہائی کے لئے تحریک کا آغاز کرنے میں پیر صابر شاہ کا بنیادی کردار رہا ہے۔آٹھ سال تک ڈکٹیٹر کے خلاف جہدوجہد کی ۔اے آر ڈی کے جلسوں سے لے کر عدلیہ کی بحالی تحریک تک فعال کردار ادا کیا۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں نے طرح طرح کی ترغیبات دیں،تاہم پیر صابر شاہ نے مسلم لیگ(ن)محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا ۔پیر صابر شاہ آج بھی وزیراعظم محمد نواز شریف کی پالیسیوں کے حق میں ہر جگہ لیکچر دیتے ہیں ۔سی پیک کے حق میں بھی مختلف قومی اخبارات میں بیانات جاری کرتے ہیں اور حکومت کے میگا پراجیکٹس کے حوالے سے عوام کو باخبر رکھتے ہیں ۔عمران خان کی منفی اور گالم گلوچ کی سیاست کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہیں ۔
مسلم لیگ(ن)کی گزشتہ ساڑھے تین سالہ حکومت میں پیر صابر شاہ کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں رہا۔سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ(ن)سندھ کے رہنماؤں مشاہد اللہ خان ،سلیم ضیاء اور نہال ہاشمی کو پنجاب کے کوٹے سے سینیٹر بنایاگیا ۔خیبرپختونخوا میں جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی اور جاوید عباسی کو سینیٹر بنایا گیا، لیکن پیر صابر شاہ کو مسلم لیگ(ن)کی حکومت میں بھی نظر انداز کیاگیا ۔سب سے دل دکھانے والی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھیوں، جنہوں نے پرویز مشرف سے وزارتیں ،مراعات اور اربوں کے مالی فوائد حاصل کئے اور مسلم لیگ(ن)کو نقصان پہنچایا، وہ وزیر اور مشیر بنا دیئے گئے، لیکن وزیراعظم محمد نواز شریف کے ساتھ سخت ترین وقت میں ساتھ دینے والے ،ہر قسم کی مراعات اور لالچ کو مسترد کرنے والے وفادار ساتھیوں کوپرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ہے ۔آج بھی صوبے کے مختلف اضلاع سمیت فاٹا سے کارکن و عہدیدار کام کے لئے آتے ہیں،گلے شکوؤں کے انبا لگاتے ہیں ۔صابر و شاکر پیر صابر شاہ اپنی حکومت میں بھی کارکنوں کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب! جس طرح 2008ء میں لندن واپسی سے پہلے نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ وفادار اور جلا وطنی کے دوران ساتھ دینے والے ساتھیوں کو سونے میں تول دوں گا، اب بھی وقت ہے وفادار اور جانثار ساتھیوں کو عزت کا مقام دیں،انہیں مزید سائیڈ لائن نہ کریں۔