جنرل شجاع پاشا کے ڈی جی آئی ایس آئی بننے کے دو ماہ بعد ہی ممبئی حملہ ہو گیا تھا ۔ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کے درمیان برسوں سے چلتی کشیدگی میں میرے واقعہ کے بعد مزید اضافہ ہو گیا ۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ جان کیری کے 15 فروری کو پاکستان آنے سے پہلے جنرل شجاع امریکا گئے تھے اور صاف صاف پوچھا تھا کہ کیا ریمنڈ سی آئی اے کے لئے کام کرتا تھا ؟ انہیں بتایا گیا کہ ریمنڈ کا سی آئی اے سے تعلق نہیں اوراس معاملہ کو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ دیکھ رہا ہے نہ کہ سی آئی اے ۔ اس جواب نے جنرل شجاع پاشا کے غصے میں مزید اضافہ کر دیا تھا ۔ اس کے بعد وائٹ ہاؤس اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ میری ملازمت کی نوعیت کی وضاحت کی گئی تو شجاع پاشا کو بات سمجھ آگئی ۔
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جنرل شجاع پاشا بھی پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کی طرح مجھے اس وقت تک جیل میں رکھنے کے خواہش مند تھے جب تک کہ اس سارے معاملے کا کوئی حل نہ نکل آئے ۔ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی تھے ۔ انہیں بھی اس سلسلے میں میری رہائی کے لئے کہا گیا ۔ عام طور پر انہیں امریکا کی جانب جھکاؤ رکھنے والے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن حسین حقانی نے بھی میرے حوالے سے تعاون نہیں کیا ۔ اس کے بعد دونوں افواج کے اعلی افسران اومان کے ساحل پر لگژری سیر گاہ میں ملے ۔ یہ انتہائی خفیہ ملاقات میرے گرفتار ہونے سے کافی پہلے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے طے کی گئی تھی لیکن ملاقات کا زیادہ حصہ میری گرفتاری کے حوالے سے گفتگو پر مشتمل رہا ۔ دونوں جانب سے اتفاق رائے پر یہ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ۔ چیئرمین جوائنٹس چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن نے رپورٹرز سے کہا کہ میں اس مشکل صورت حال میں وقت دینے اور مذاکرات جاری رکھنے پر جنرل کیانی کا شکر گزار ہوں جبکہ جنرل کیانی نے کہا کہ مجھے امریکی فوج کے افسران سے اس ملاقات پر خوشی ہے جس میں انتہا پسندی کے خلاف کی جانے والی ہماری کوششوں اور میری اس سوچ پر تبادلہ خیال ہوا کہ کیسے ہم دونوں بہتر تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں ۔ یہ تعلقات دونوں کے لئے ہی کسی امتحان سے کم نہ تھے لیکن مولن اور کیانی کی اس ملاقات کے بعد میری رہائی کے امکانات بڑھ گئے تھے ۔ اگرچہ اس حوالے سے پیش رفت ہو رہی تھی لیکن کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی رفتار بہت کم ہے۔یہ معاملہ لٹکنے سے لوگوں میں ہیجانی کیفت بڑھتی جا رہی تھی ۔
واشنگٹن سے لوگوں نے مجھے پیغامات بھیجے کہ جنرل کیانی اور جنرل پاشا میرے معاملات کو لٹکانا چاہتے ہیں ،وہاں کیا ہو رہا ہے اور ہم کیا کرنے لگے ہیں ؟اور میں انہیں کہتا کہ ہمیں صبر سے کام لینا چاہیئے کیونکہ ہمارے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں ۔
دسمبر 2010 میں لیون صدر اوبامہ سے ملے اور انہیں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں ہونے کے وسیع امکانات سے آگاہ کیا ۔ صدر اوبامہ نے انہیں اسامہ بن لادن کو پکڑنے ، مارنے کے منصوبے پر کام کرنے کا کہاجس کے بعد انہوں نے ایڈمرل ولیم کے ساتھ سی آئی اے ہیڈ کوارٹر میں مسلسل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ فروری 2011 کے آخر میں جب میں کوٹ لکھپت جیل میں قید تھا تب اسامہ کے کمپاؤنڈ میں حملہ کے لئے تین ممکنہ حملوں کی آپشنز بنائی گئی تھیں ۔ پہلی آپشن کے مطابق بمبار طیارے کی مدد سے پورے کمپاؤنڈ اور اس کے نیچے ممکنہ سرنگ کو تباہ کرنا تھا ۔دوسری آپشن کئے مطابق ہیلی کاپٹر کے ذریعے براہ راست سپیشل فورسسز کو نیچے اتارنا تھا اور تیسری آپشن کے مطابق پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لے کر انہیں آپریشن میں معاونت کا موقع دینا تھا،تاہم تیسری آپشن کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ۔
پانچ ہفتے گزر جانے کے بعد میں نا امید ہونا شروع ہو گیا ۔ اس وقت تک اگر کوئی اچھی خبر تھی تو وہ یہ تھی کہ میرے خلاف کوئی باضابطہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی ۔ میں بخاری کا شکر گزار ہوں کہ اس کا موقف عدالت نے تسلیم کر لیا کہ مجھے اس کیس سے متعلق تمام دستاویزات ابھی تک موصول نہیں ہوئیں ۔ جج نے جوڈیشل ریمانڈ بڑھاتے ہوئے سماعت ملتوی کر کے اگلی تاریخ دے دی تاکہ اس دوران میری لیگل ٹیم کو متعلقہ دستاویزات فراہم کی جا سکیں ۔ (جاری ہے)
امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے جرم سے رہائی تک کی داستان۔ ۔ ۔آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان آنے والاایسا امریکی جاسوس قرار دیا جاتا ہے جس نے لاہور میں دو افراد کودن دیہاڑے گولیاں مار کر قتل کیا اور پھر گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ چلا اور قریب تھا کہ اسے سزائے موت سنا دی جاتی لیکن حالات نے ڈرامائی موڑ لے لیا ۔ اچانک مقتول کے ورثا دیت پر راضی ہو گئے ۔ کروڑوں روپے دیت کی رقم کس نے ادا کی اس پر متضاد رائے ہے کیونکہ کوئی بھی اس رقم کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہ ہوا ۔ بہرحال یہ شخص جسے کبھی سفارتی عملہ کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسے بلیک واٹر کے قاتل کورڈ کا حصہ قرار دیا گیا، باآسانی پاکستان سے امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری صورت حال پر ’’ کنٹریکٹر ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈیلی پاکستان آن لائن میں قسط وار پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ادارہ یا قاری کا اس کتاب کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کتاب پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص نے لکھی ہے جو خود کو کچھ بھی کہے لیکن پاکستان کے عوامی حلقوں میں اسے جاسوس قرار دیا جاتا ہے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے عزائم اور اسکے ’’مالکوں‘‘ کی فطرت اور طریقہ کار کو سامنے لانے کی غرض سے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرنا قومی مفاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی اس کتاب میں جو ’’انکشافات‘‘ کئے گئے ہیں انہوں نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ کتاب کا ترجمہ و تلخیص نامورتحقیقاتی صحافی سید بدر سعید نے کیاہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں چھپنے والی پہلی اردو تحقیقاتی رپورٹ سید بدر سعید نے ہی لکھی تھی ۔ مصنف اس سے قبل ’’خودکش بمبار کے تعاقب میں ‘‘ اور ’’صحافت کی مختصر تاریخ . قوانین و ضابطہ اخلاق ‘‘ جیسی تحقیقاتی کتب لکھ چکے ہیں ۔ انہیں دہشت گردی ، طالبانائزیشن اور انٹیلی جنس امور پر اتھارٹی سمجھا جاتا ہے ۔وہ پاکستان کے اہم صحافتی اداروں میں اہم عہدوں پر ذمہ داریاں سر انجام دے چکے ہیں ۔