امریکی اور روسی آویزش کے نتیجہ میں امریکی افواج نے افغانستان میں اپنا مستقل پڑاؤ ڈال دیا۔ اس پڑاؤ کے اثرات پاکستان کے علاقوں پر بھی ہوئے۔بش انتظامیہ نے کسی نہ کسی بہانے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کر دئیے۔ جس سے پاکستان کو بھی کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ شمالی علاقہ جات امریکی افواج کی براہ راست زد میں تھے۔ ان علاقوں میں بڑے اللہ والوں کے گھر بھی ہیں۔ انہی علاقوں میں ایک دینی مدرسہ جامعہ یوسفیہ کے نام سے تھا جس میں انہی علاقوں کے طلباء قال اللہ و قال الرسول کی دلنواز صدائیں بلند کرتے تھے۔امریکی افواج نے اس دینی مدرسہ کو بھی نشانہ بنایا اور بہت سے طلباء شہید ہو گئے جن میں مدرسہ کے مہتمم مولانا محمد امین اورکزئی بھی شامل تھے جو براہ راست ان حملوں کی زد میں آئے۔ مولانا موصوف کے ایک انتہائی ہونہار شاگرد مولانا محمد طفیل صاحب ہیں۔ عالم باعمل، تقویٰ تدین ، باطنی طہارت میں مولانا محمد امین کا پرتو ہیں۔ ان کو اپنے استاد کی شہادت کا بہت غم تھا۔ انہوں نے اس غم کو صبر کی چادر دی اور آنسوؤں میں سمویا اور مولانا محمد امین کی یادوں پر مشتمل علمی کتاب کی شکل دے دی اور اس طرح جبر کو صبر کے سامنے مات دے دی ہے اور اس طرح اپنے استاد کی جدائی کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ مولانا محمد طفیل ’’المظاھر‘‘ کے نام سے دینی و علمی رسالہ کے ایڈیٹر ہیں۔انہوں نے اسی رسالے کا ایک خاص نمبر شائع کیا ہے۔ مولانا محمد طفیل صحیح معنوں میں عالم دین ہیں۔ قدیم و جدید پر گہری نظر رکھتے ہیں، لکھنے لکھانے کی مہارت ان کے طرز تحریر سے جا بجا ثبوت کے طور پر ملتی ہے۔ وہ اپنے مرحوم استاد کے ساتھ محبت نہیں بلکہ عشق رکھتے ہیں جو دینی تعلیم کا خاصا ہے۔ وگرنہ موجودہ نظام تعلیم کا اثر تو یہ ہے:
تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیہ دل پیش کیجئے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے
جامعہ یوسفیہ شاہو دام ہنگو جیسے دور دراز علاقہ میں قائم ہے جو مولانا محمد امین کا صدقہ جاریہ ہے اور ان شاء اللہ تاقیام قیامت قائم و دائم رہے گا اور مولانا مرحوم کی یاد دلاتا رہے گا اور تشنگان علم یہاں سے سیراب ہوتے رہیں گے۔مولانا محمد طفیل صاحب اپنے استاد کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ذاتی طور پر بندہ کو حضرت الاستاذؒ کے جس کمال نے ورطۂ حیرت میں ڈالا اور جس کو کماحقہ تعبیر کرنے سے اپنے قلم کی بے بضاعتی اور علمی کم مائیگی کے باعث مکمل طور پر قاصر رہا وہ آپ کی محیر العقول جامعیت تھی‘‘۔۔۔مولانا محمد امینؒ کے خصوصی نمبر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم کے بحر ذخار تھے اسی لیے مدیر ’’سہ ماہی المظاھر‘‘ کا کہنا ہے کہ مرحوم کے ہمہ جہت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے یہ مجموعہ حضرت کی زندگی پر نقش اوّل کی حیثیت رکھتا ہے ان شاء اللہ مستقبل میں آپ کی زندگی کی مختلف جہات پر لکھاجائے گاجو مولانا محمد امین شہید ؒ کا علمی صدقہ جاری رہے گا۔اس خصوصی اشاعت کے مطالعہ سے اس بات کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کے بعد انگریز نے جو نظام تعلیم یہاں رائج کیا اس سے اصل علم تو معدوم ہو گیا اور مختلف فنون کو ہی علم سمجھ لیا گیا۔ جس سے مقصد علم ذہنوں سے محو ہوا اور مادیت پرستی ہی ذہنوں پر غالب ہو کر رہ گئی۔ انگریز کے جاری کردہ نظام تعلیم نے علم کو پیٹ کے ساتھ نتھی کر دیا۔ جبکہ اسلامی نقطہ نظر سے علم بغرض شعور انسانیت کا نام ہے جو باطن کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ رہا معاش تو اس کی ذمہ داری اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کیفیت کو دیکھ کر فرمایا:
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش
اس رسالے کے ایڈیٹر مولانا محمد طفیل صاحب ہیں جو اپنی تحریروں اور خیالات سے اپنے استادوں کا پرتو لگتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے ایسے جواں سال جواں بختوں کے لیے کہا تھا:
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیٰ سوز صدیق دے
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
’’المظاھر‘‘ ایک علمی رسالہ ہے جو خیبر پختونخوا سے شائع ہوتا ہے۔ رسالہ کا اجراء کوئی برس پہلے ضلع کوہاٹ سے ہوا تھا۔ پہلے یہ ماہنامہ تھا لیکن اب پیش نظر اشاعت میں سہ ماہی کے الفاظ مطبوع ہیں۔ جو اس بات کے نمیم ہیں کہ رسالہ ماہی نہیں رہا بلکہ تین ماہی کر دیا گیا ہے۔ آج کے دور میں کسی بھی علمی رسالہ کا اجراء’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘ سے کم نہیں ، پھر اس میں تسلسل کا برقرار رکھنا مزید جان جوکھوں کا کام ہے۔’’المظاھر‘‘ کے مدیر حوصلہ مند سخت کوش ہیں ، تمام روکاوٹوں کو پھاند کر رسالہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم ان کو اس سخت کوشی و پیہم کوشی پر مبارک باد کا مستحق سمجھتے ہیں۔ ’’المظاھر‘‘ کا پیش نظر شمارہ خصوصی اشاعت ہے جو معروف عالم مولانا محمد امین شہید اورکزئی کے نام سے موسوم ہے۔ نامور اور معروف شخصیات کے نام سے موسوم خاص نمبر شائع کرنا پرانی روایت ہے۔ پیش نظر شمارہ ایک جامع علمی مرقع ہے جس کے مطالعے سے بہت اہم معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں بلکہ ’’سہ ماہی المظاھر‘‘ افغانستان و پاکستان کے معروضی حالات کی خبر بھی دیتا ہے۔مولانا محمد امین امریکی عسکری یلغارکا براہ راست نشانہ بنے۔ یہ 11 جون 2009ء کا واقعہ ہے کہ مولانا موصوف کے جامعہ یوسفیہ پر امریکی بمباری ہوئی اور آپ اس بمباری کا نشانہ بنے کیونکہ آپ اپنے علاقے میں اتحاد و امن کی علامت تصور کیے جاتے تھے۔ یہی بات امریکی افواج کو پسند نہ تھی او رآپ کو شہید کر دیا گیا۔آپ کے جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے والے سینکڑوں طلباء استاد کی شفقتوں سے محروم ہو کر رہ گئے۔ ان طلباء کی تعداد اتنی کثیر تھی چاہتے تو انتظامیہ کے لیے مسئلہ پیدا کر دیتے، لیکن استاد کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ تمام طلباء
’’ہم ہیں خاموش کہ برھم نہ ہو گلشن کا نظام
وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت گفتار نہیں‘‘
کی تصویر بنے رہے۔
مولانا مرحوم کے چیدہ طلباء نے اپنے بہتے آنسوؤں کو جمع کیا اور ’’المظاھر‘‘کی صورت میں ایک علمی دستاویز کی شکل دے کر علمی ارمغان تیارکر دی۔ جو صبر و شکر کی عملی دستاویز ہے اور تائیداً کہا ’’مر د ماں چنیں کنند‘‘۔۔۔’’سہ ماہی المظاھر‘‘ ضخامت کے اعتبار سے بارہ سو انتالیس1239 صفحات پر مشتمل ایک علمی دستاویز ہے جس میں گراں قدر علمی مضامین کے علاوہ اس دور کے سیاسی حالات کا بھی علم ہوتا ہے جو امریکہ کے حکومتی جبر کا پتہ دیتے ہے جو اس نے عالم اسلام کے مجبور و مقھور مسلمانوں پر روا رکھے ہوئے ہیں۔ ’’سہ ماہی المظاھر‘‘ کی اس خصوصی اشاعت سے اس بات کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے۔مولانا محمدامین اورکزئی کے تربیت یافتہ شاگرد پر عزم ہیں اور ہر باطل سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ اور علامہ اقبال کے الفاظ میں:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیاتھا
سنا ہے قدسیوں سے مَیں نے وہ شیر پھر بیدار ہو گا
’’سہ ماہی المظاہر‘‘ کو انہوں نے چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ آغاز میں اکابر کی مختصر تقریظات ہیں جو تینتیس33 صفحات تک ممتد ہے اس کے بعد باب اول احوال الامین کے عنوان سے ہے جس میں مولانا مرحوم کے ذاتی احوال دئیے گئے ہیں۔باب دوم کا عنوان آثار امین ہے جس میں مولانا کے علمی شہ پاروں کا تذکرہ ہے۔ اور ان کے علمی ورثہ کا ذکر ہے۔ جو مرحوم اپنے قلم سے ترکہ کے طور پر چھوڑ کر گئے جس سے اہل علم مستقل استفادہ کرتے رہیں گے۔باب سوم کا عنوان تذکار امین ہے یہ سب سے طویل باب ہے جو صفحہ تین سو تراسی سے لے کر صفحہ نمبر ۶۷۰۱ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں پہلے حصے میں ان کے اعزہ اقربااہل خانہ کے رشحات قلم ہیں جو اپنی ذات میں مستقل علمی خزانہ ہیں۔جن کے مطالعے سے بسا اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی اشکوں کا لا متناہی سیل جاری ہوجاتا ہے۔ اشکوں کا یہ سیل رواں روکے نہیں رکتا نیز خشیت الہٰی کا احساس بھی دل میں چٹکیاں لیتا محسوس ہوتا ہے اور انسان یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے:
بھری محفل میں آنسو آ گئے خدارا معاف کر دو
قسم لے لو میں واقف نہ تھا آداب محفل سے
دوسرے حصے میں ان کے متعلقین تلامذہ اور دیگر متعارفین کے تاثراتی مضامین ہیں جن سے مولانا کی ہر دل عزیزی ان کے تقویٰ ،تدین، علمی گہرائی اور گیرائی کا پتہ دیتے ہیں۔ ہر مضمون اپنا منفرد مقام کا حامل ہے۔باب چہارم کا عنوان نقش امین ہے۔ اس باب میں مولانا مرحوم کی خود نوشت تحریریں شامل ہیں۔باب پنجم کا عنوان مکاتیب امین ہے۔ یہ ان علمی اصلاحی خطوط پر مشتمل حصہ ہے جو خطوط کے نا م سے مولانا محمد امین یا ان کے مختلف اساتذہ کرام و اکابر نے لکھے اور ان کے جواب جو شہید کے قلم گہربار سے نکلے۔ تمام خطوط معاشرتی اصلاح کے ضامن ہیں۔ان مکاتیب میں مولانا محمد یوسف بنوریؒ ، مولانا محمد زکریاؒ ، مولانا محمد ادریس میرٹھیؒ ، مولانا فضل محمد سواتی ؒ اور مولانا سرفراز خاں صاحب ؒ کے خطوط شامل ہیں۔اس میں بعض ایسی غلط رسوم کا تذکرہ بھی شامل ہے جو دور جاہلیت کی رسومات کا تسلسل ہیں جو لوگوں میں رسماً شامل ہو گئیں اور لوگوں نے ان کو شریعت کا حصہ سمجھ کر اختیار کرلیا۔ مولانا شہیدنے ان کے ابطال میں نقلی دلائل بھی دئیے ہیں یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ برصغیر کے نو مسلم عالم مولانا عبیداللہ کو جب اللہ نے ہدایت سے نوازا تو انہوں نے ’’تحفۃ الہند‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کے مطالعے کے نتیجے میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو بھی اسلام نصیب ہوا۔باب ششم میں یاد امین کے عنوان سے منظوم تاثرات دئیے گئے ہیں اور بعض ایسی چیزوں کی تصاویر دی گئی ہیں جو مولانا محمد امین شہید کے ذاتی استعمال میں رہیں۔مجموعی طور پر’’ المظاھر‘‘کا مولانا محمد امین شہید نمبرگراں قدر علمی گلدستہ ہے جو مولانا موصوف کے علم کی خوشبو کو مستقل پھیلاتا رہے گا۔