عید الفطر کا چاند دنیا بھر میں نظر آیا کہیں ایک روز قبل تو کہیں دوسرے روز عید ہوگئی لیکن فلسطینیوں پر ہوتا ظلم کسی کو دکھائی نہ دیا اور فلسطینیوں نے جیسے عید کی وہی جانتے ہیں اسرائیل نے ظلم کاجو سلسلہ دراز کیا تھا وہ یہاں تک آپہنچا کہ خود کو انسانی بھیڑیوں کی نظروں سے بچاتے عفت مآب بیبیاں ننگے پاؤں ویران گلیوں میں آنکھوں میں اشکوں کی برسات لئے چہرے پر خوف کے گہرے سایوں میں کہیں پناہ ڈھونڈ رہی ہیں۔کپکپاتے ہونٹ دعاؤں میں مشغول ہیں اور سہمی ہوئی نگاہیں خوف میں ڈوبی ہوئی ہیں اپنے جسموں کو اپنے بازوؤں سے ڈھانپتی ہوئی عفت مآب بیبیاں یہودیوں کی دسترس سے کہیں دور جانا چاہتی ہیں لیکن انہیں کہیں امان نہیں مل رہی ان بیبیوں کی آنکھوں میں اپنوں سے بچھڑنے کا غم خار مغیلاں کی طرح چبھ رہا ہے غیر محفوظ یہ بیبیاں کسی محافظ کی تلاش میں ہیں کہ کوئی خدا کا نیک بندہ صلاح الدین ایوبی بن کر آجائے اور ان کی عصمتوں کو بچا لے سلطان صلاح الدین ایوبی صرف تاریخ اسلام نہیں بلکہ تاریخ عالم کے مشہور فاتحین و حکمرانوں سے تھا جس نے1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس آزاد کرایا تھا۔جہاں اب یہودیوں کا تسلط ہے۔یہودی دنیا کا ہر ستم ڈھانے کے بعد ہماری فلسطینی بہنوں کی عزتوں کے تعاقب میں ہیں کہ اب یہودی فلسطین کی بیٹیوں کی عصمتیں پامال کر کے انہیں شہید کر رہے ہیں کون سا ایسا ظلم ہے جو یہودیوں نے فلسطینیوں پر روا نہیں رکھا بچوں سے لے کر بوڑھوں تک جوانوں سے لے کر خواتین تک ہسپتال میں پڑے بیمار ہوں یا پناہ گزین۔ مساجد ہیں کہ چرچ مجبور بے بس ہوں یا ہجرت کرنے والے یا امداد کے منتظر شہری ہوں یہودیوں نے ہر جگہ ان پر آگ اور بارود برسایا ہے رمضان المبارک کا مقدس مہینہ لمحہ لمحہ برکتیں لٹاتے ہوئے سحر و افطار کی مبارک گھڑیوں سے ہوتے ہوئے عید کی لازوال خوشیوں تک پہنچتا ہے دنیا کا کوئی کونہ ہوگا جہاں ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد نہ دی جاتی ہوگی کہ عید کو خدا نے بنایا ہی بڑا مبارک اور متبرک ہے۔مبارک مہینے کی برکتوں کو لٹاتے ہوئے مبارکیں بکھیرتے ہوئے اپنی ساری برکتیں اور مبارکیں لے کر رمضان المبارک عید کی لافانی ساعتوں تک آپہنچتا ہے اور ہر کوئی چاہے بے کس ہو کہ لاچار مجبور ہو کہ محصور امیر غریب سب ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دے رہے ہوتے ہیں ذرا سوچیے کہ اللہ تعالی نے عید کو مسلمانوں کے لیے کس قدر مبارک کر دیا ہے لیکن فلسطین کے گرتے پڑتے لٹتے شہری زخموں سے چور جسموں کے ساتھ کئی ماہ سے یہودیوں کے بارود کی آگ پھانکتے ہوئے فلسطینی اپنوں سے بچھڑنے کا غم لئے ایک دوسرے کو مبارک باد تو دیتے ہوں گے ایک دوسرے کو گلے تو لگایا ہوگا لیکن زخموں سے چور جسم جب ایک دوسرے کے گلے لگے ہونگے تو عید مبارک کے ساتھ ان کے جسموں سے درد کی ٹیسیں بھی اٹھی ہو نگی جو آہ بن کر نکلی ہوں گی اور عید کی مبارک میں آہوں کی آمیزش حالات کو کتنا سوگوار کرگئی ہوگی یہ فلسطینی ہی جانتے ہیں۔اور عید تو بچوں کے کھلکھلا کر ہنسنے کا نام ہے عید کی خوشیوں کے سارے رنگ بچوں میں ہی تو پائے جاتے ہیں ہماری آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھے کہ ماؤں نے کتنے چاؤ اور رچاؤ سے اپنے بچوں کو نہلایا انکے بال بنائے انہیں خوبصورت پیرہن زیب تن کیا تتلیوں کے پروں سے نازک ان بچوں کو انکی ماؤں نے متلون رنگوں کی شرٹس پہنا رکھی تھیں جن پر پھول۔تتلیاں۔اور مختلف تصاویر کے نقش ابھرریے تھے انکے چہروں پر ملائمت ابھی باقی تھی یہ خون میں نہلائے ہوئے بچے تھے جنکی نعشیں ایک کمرے میں پڑی تھیں انکی عمریں چار چھ آٹھ سال سے زیادہ نہ ہونگی کسی کا بازو کہیں تو کسی کی ٹانگ کہیں تھی ان بچوں پر اسرائیلی بم برسائے گئے تھے اور ان بچوں کے مناظر بھی آنکھوں میں تیر کی طرح پیوست ہو کر رہ چکے ہیں جنکے ساتھ انکی ٹیچرز جنگ کی گھن گھرج اور وحشت کے سایوں میں کھیل کود میں مصروف تھیں تاکہ کھیل ہی کھیل میں ان بچوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لائی جائے انہیں جنگ کی خونریزی بھلائی جاسکے یہ بچے گول دائرے میں اپنی ٹیچرز کے ہاتھ پکڑے اچھل رہے تھے کھیل رہے تھے کہ اچانک ان پر اسرائیل کی جانب سے پھینکا گیا ایک بم گرتا ہے جو چشم زدن میں کھیل کے اس میدان کو لاشوں کا ڈھیر بنا دیتا ہے جہاں چند لمحے پہلے بچے اچھل رہے تھے مسکرا رہے تھے وہاں ان ہی بچوں کی نعشیں تھیں اور نوحہ کہتے لوگ تھے میں فلسطینیوں سے مل چکا ہوں یہ بڑے نفیس لوگ ہیں جنکے چہروں کی سرخیوں سے شفق بھی شرماجاتا ہے جیسے ان کے چہروں پر غازہ لگایا گیا ہو ایسے خوبصورت فلسطینیوں کا حسن انکی شہادتوں کے بعد بھی ماند نہیں پڑا تھا۔
سوچتا ہوں کہ کربلا کے میدان کے مناظر کیا ہوں گے؟ کہ جب معصوموں کو پیاسا رکھا گیا اور کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر اہل بیت پاک کے گھرانے کے پھولوں کو مسلا گیا کہ جب گلشن زہرا ؓ کے پھولوں پر پانی بند کر کے تیر اور تلوار کی بارش کر دی گئی آج غزہ کی گلیوں کے بھی وہی منظرہیں کہ جہاں بھوکے پیاسے بچے ماؤں سے بچھڑے ہوئے جگر گوشے خون آلود ہیں گلیوں میں بکھرے ہوئے زندگی کو ترستے ہوئے سسکتے ہوئے اپنی ماؤں کی تلاش میں ہیں اور کتنی مائیں اپنے بچوں کی تصویریں آنکھوں میں ثبت کئے انہیں ڈھونڈ رہی ہیں حالانکہ وہ بچے تو جنت مکیں ہوچکے۔ آج جبکہ ایران نے شام میں اپنے سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دیا ہے تو اسرائیل اقوام متحدہ کی طرف دوڑتا ہے وہی اقوام متحدہ کہ جس کی کسی قرار داد کو اسرائیل خاطر میں لائے بغیر عالمی جنگی قوانین کی پابندی کئے بغیر فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے وہی اقوام متحدہ کہ جس کے خلاف اسرائیل کئی بیانات دے چکا ہے اس کے خلاف برہمی کا اظہار کر چکا ہے برطانیہ امریکہ نے غزہ پر چڑھ دوڑتے اسرائیلیوں کی حوصلہ شکنی تک نہیں کی بلکہ الٹا اسرائیلی وحشیوں کی عملی امداد کی ہے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کیا ہے اور کررہے ہیں آج اسرائیل پر ایران حملے کے خلاف برطانیہ امریکہ تڑپ اٹھے ہیں یہ برطانیہ امریکہ ہی سب سے پہلے اسرائیل کی امداد کو پہنچے تھے جب اسرائیل نے غزہ پر آگ اور باروود کی بارش شروع کی تھی لیکِن کاش ایران دمشق میں اپنے قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے سے پہلے ہی فلسطینیوں پر کئے جانے والے روزانہ کی بنیادوں پر حملوں کو خود پر حملہ تصور کرتا۔آج عالم اسلام کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے مکروہ چہروں کو پہچانتے ہوئے عملی اقدامات کریں آج بھی اگر عالم اسلام نے اتحاد کرلیا تو حالات کچھ بدل سکتے ہیں وگرنہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو کرچکا ہے اور جو کررہا ہے وہ امت مسلمہ کے لئے شرمناک ہی نہیں عبرتناک بھی ہے