بلاول کو ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب کا بلاوا

Jan 17, 2025

نسیم شاہد

ڈونلڈ ٹرمپ20جنوری کو نئے امریکی صدر کا حلف اٹھائیں گے۔امریکہ کے سپر پاور ہونے کی اِس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ اُس کے نئے صدر کی حلف برداری میں دنیا بھر سے سربراہانِ مملکت شرکت کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ حلف برداری تقریب کے کسی کونے میں لگی میز پر بیٹھنے کے لئے بھی کم از کم ایک ملین ڈالر یعنی30کروڑ روپے کی ٹکٹ خریدتے ہیں۔ پاکستان اُن ممالک میں سے ہے جہاں امریکی اثر و نفوذ سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں تو شیدا ریڑھی والا بھی اِس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے امریکہ کی مرضی،بلکہ اجازت اُس میں شامل ہوتی ہے۔امریکہ اتنے قریب اور اُس کی بات ماننے میں آگے آگے ہونے کے باوجود یہی امریکی ڈنڈی بھی مار جاتا ہے۔مثلاً جہاں دنیا بھر سے سربراہانِ مملکت بلائے ہیں وہاں پاکستان کو نظرانداز کر دیا ہے،ملک کے وزیراعظم یا صدرکو تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔سنا ہے اسرائیلی وزیراعظم نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی ہے ہمیں بلایا جاتا تو ہم ہرگز معذرت نہ کرتے، بلکہ خوب ڈھنڈورا پیٹتے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہماری شرکت کے بغیر اپنی تقریب ادھوری اوربے رنگ لگنی تھی اِس لئے دعوت دی گئی ہے۔ ظاہر ہے یہ بہت اعزاز کی بات ہے دنیا کی سپر پاور کے نئے صدر کی حلف برداری میں کسی کو شرکت کا باقاعدہ دعوت نامہ ملے اور وہاں اُن کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا موقع بھی دیا جائے۔ تحریک انصاف والے یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب کا دعوت نامہ عمران خان کو بھیجا جائے گا پاکستانی حکام کو اِس دعوت پر عمران خان کو امریکہ بھیجنا پڑے گا،کیونکہ یہ کوئی چیئرمین سینٹ کا پروڈکشن آرڈر تو ہے نہیں،جس پر عملدرآمد سے انکار کر اوراعجاز چودھری کو سینٹ اجلاس میں نہ بھیجا جائے، لیکن یہ اُمید پوری نہیں ہو سکی۔رچرڈ گرنیل کی لابی کامیاب ہوئی اور نہ امریکہ میں موجود پاکستانی کمیونٹی ایسا کوئی دباؤ ڈال سکی، جہاں وزیراعظم شہباز شریف دعوت نامہ حاصل نہ کر سکے، عمران خان کو دعوت نہیں ملی وہاں یہ خبر بڑی دلچسپی سے سنی گئی کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو امریکی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ مل گیا ہے۔ پیپلزپارٹی والے اس پر بھنگڑے ڈال رہے اِسے بلاول بھٹو زرداری کے روشن سیاسی مستقبل کی دلیل قرار دے رہے ہیں۔اُن کے نزدیک امریکہ مستقبل کو دیکھ کر سرمایہ کاری کرتا ہے، بلاول بھٹو زرداری چونکہ پاکستانی سیاست دانوں میں سب سے کم عمر ہیں اس لئے اُن سے اگلے دس پندرہ برسوں میں امریکہ تعلقات استوار رکھنا چاہتا ہے۔گویا بلاول بھٹو زرداری نے اب وزیراعظم بننا ہے اور شاید ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہی بن جائیں۔ ہمارے ایک استاد بہت سینئر نقاد اور محقق ہیں، لاہور میں مقیم ڈاکٹر نجیب جمال نے سوشل میڈیا پرایک پوسٹ اِن الفاظ میں لگائی۔”بادبان کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا، امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری میں بلاول بھٹو زرداری کو مدعو کر لیا“۔ڈاکٹر نجیب جمال بادبان کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنے، والے شعر کا دوسرا مصرعہ درج کرتے تو انہیں اندازہ ہوتا اس میں ملنے کا نہیں بچھڑنے کا منظر ہے۔

پہلے تو اس پر تحقیق ضروری ہے ڈونلڈ ٹرمپ، بلاول بھٹو زرداری کا نام بھی جانتے ہیں یا نہیں۔یہ کہنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بلاول بھٹو زرداری کو مدعو کر لیا،ایک بڑا دعویٰ اس لئے ہے کہ اس تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ خود کسی کو مدعو نہیں کر رہے۔یہ اس ٹیم کا کام ہے،جس کے ذمے یہ کام لگایا گیا ہے۔ یہ کوئی ہماری طرح کی تقریب تو ہے نہیں جس کے کارڈ ہم سامنے بیٹھ کر لکھواتے ہیں۔ یہ امریکی محکمہ خارجہ بھی تعین کرتا ہے کسے بلانا ہے اور کسے نظرانداز کرنا ہے۔ہم یہاں بیٹھ کے اپنے رہنماؤں کے نام دن رات سنتے ہیں تو یوں لگتا ہے جسے پوری دنیا اُن سے واقف ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے پاکستانی سیاستدانوں کا نام ملک سے باہر نکلیں تو سوائے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے باقی سب کے لئے بے معنی ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی جو کچھ ہیں پاکستان کے اندر ہیں امریکہ جیسے ملک میں تو سربراہانِ مملکت اقوام متحدہ کے اجلاسوں کی وجہ سے مارے مارے پھرتے ہیں، امریکی صدر سے اُن کی ملاقات نہیں ہوتی،نہ ہی امریکی صدر کو دنیا کے تمام ممالک سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کا علم ہوتا ہے۔البتہ پاکستان میں کسی سیاستدان کی اہمیت بڑھانے کے لئے امریکی حلقوں میں اُس کی پذیرائی کا ڈھنڈورا ضرور پیٹا جاتا ہے۔ کوئی کانگریس یا ایوانِ نمائندگان کا رکن بھی مل جائے تو اس کی خوب پبلسٹی کی جاتی ہے۔ایک طرف ہم ملک میں کسی کو یہ طعنے دیتے ہیں کہ وہ امریکی ایجنٹ ہے تو دوسری طرف ہر کوئی یہ باور بھی کرانا چاہتا ہے کہ وہ امریکہ کے بہت قریب ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو بلاوا آیا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ نوجوان سیاستدان ہیں اُن کی عالمی سطح پر پہچان اور لابی ہونی چاہئے تاہم پاکستان کے معصوم عوام کو یہ تاثر نہ دیا جائے،نئے امریکی صدر نے پورے پاکستان سے صرف بلاول بھٹو زرداری کو چُن لیا ہے، چونکہ وہ حلف برداری میں شرکت کے لئے جا رہے ہیں اِس لئے اب اُن کی باری کا وقت آ گیا ہے۔یہ ایک بہت بڑا سیاسی خبط ہے جس نے ہمیں کئی دہائیوں سے گھیر رکھا ہے۔ ہم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہوئے اور نہ ہی اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں،وہ جسے چاہیں گے اقتدار میں لے آئیں گے۔

ٹیکنالوجی کے اِس دور میں کوئی بات چھپی نہیں رہتی، جلد یا بدیر یہ بات سامنے آ جائے گی،بلاول بھٹو زرداری نے اپنے آپ کو امریکی حلقوں میں لانچ کرنے کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں اُن کی طرف سے دعوت پر شرکت کی یا اِس تقریب کے منتظمین کی طرف سے دیئے گئے پیکیج کے مطابق کم از کم ایک ملین ڈالر دے کر ٹکٹ خریدی۔اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے بلاول بھٹو زرداری کو بلایا ہے، تو یہ بڑے اعزاز کی بات ہے، پھر وہ بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات بھی کریں گے اور فخریہ تصویر بھی کھنچوائیں گے۔ یہ تصویر سامنے آئے گی تو بلاول بھٹو زرداری کی پورے پاکستان میں بلے بلے ہو جائے گی، لیکن اگر تصویر نہ سامنے آئی تو اُن کے مخالفین یہی کہیں گے انہوں نے سندھ کے غریبوں کی زندگی سنوارنے کی بجائے کروڑوں روپے اُس دعوت پر ہی شرکت پر خرچ کر دیئے ہیں،جس میں وہ کہیں پچھلی قطار میں بیٹھے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کا انداز جارحانہ ہے وہ رو رعایت کے قائل نہیں۔خود امریکی حلقوں میں یہ بات کی جاتی ہے وہ ایک اکھڑ اور تھوڑے متکبر آدمی ہیں۔انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب کو بھی ہالی وڈ ایوارز کی تقریب بنا دیاہے جیسے اُس تقریب میں شرکت کے لئے مہنگی ٹکٹیں خریدنا پڑتی ہیں اِسی طرح ٹرمپ فاؤنڈیشن کی فلاحی سرگرمیوں کے لئے فنڈز جمع کرنے کی خاطر اس تقریب میں ہزاروں مہمانوں کو ٹکٹ بیچ کر بلایا گیا ہے۔ یہ متمول امریکیوں کے لئے ایک معمول کی بات ہے،لیکن اگر ہمارے جیسے ملک کا سیاسی رہنماء صرف تقریب میں شرکت کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے تو اِسے ایک ایسا شوق قرار دیا جا سکتا ہے جو کارِ زیاں کے زمرے میں آتا ہے۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں