ہر خیل جدا جدا سرخیل موروثی رکھتا تھا۔ امن کے زمانہ میں سرخیل کو کوئی اختیار سوائے اس کے نہ تھا کہ وہ اپنے خیل کے آدمیوں سے مشورے لے اور ان کی خواہش اور آرزوئیں دریافت کرے اور دوسرے سرخیلوں کو اطلاع دے۔ ہر گاؤں کے باشندے اپنے اندرونی قضیوں کو خود چکاتے تھے۔ مقدمات کا فیصلہ پہنچایت میں ہو جاتا تھا۔ گاؤں میں چوپالیں یعنی حجرے ہوتے تھے اور ان میں کسی نہ کسی مطلب کے لیے مجلسیں ہوا کرتی تھیں۔ حجروں ہیں میں آپس میں بیٹھ کر گاؤں والے بھی بہلایا کرتے تھے اور مسافروں اور اپنے مہمانوں کو یہاں اتار کرتے تھے۔ ان کی زمین آپس میں برابر بٹی ہوئی تھی اس طرح کہ بری بھلی زمینیں ہر ایک کے حصہ میں باری باری آتی رہیں۔ ہندی رعیت کی مدارات اچھی طرح کی جاتی تھیں مگر معاملات و انتظامات ملکی میں اس کو مداخلت نہ تھی۔
یوسف زئی ان ہندیوں سے رنگ روپ میں ایسی فوقیت نہیں رکھتے تھے جیسی کہ اوضاع و اطوار و چال چلن میں جنوب میں افغانوں میں جو میدان کے قریب پہاڑوں میں رہتی تھیں۔ وہ مدت سے وہاں آباد تھیں اور ہندوستان کے حکمرانوں کے ساتھ بہت آمد و رفت و میل جول رکھتی تھیں۔ بعض قومیں اپنے ملک میں زیادہ نشیب و فراز رکھتی تھیں اور یوسف زئی قوم سے شائستگی اور تہذیب میں بھی کم درجہ رکھتی تھیں۔
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شہنشاہ بابر نے (کابل کے) شمال و مشرقی قوموں کے مطیع بنانے میں سخت کوشش کی جن میں سے بعض قوموں کے تابع بنانے میں کامیاب ہوا مگر وہ یوسف زئی کو مغلوب کرنے میں بالکل ناکام رہا۔ نہ وہ صلح و آمیزش کی تدبیروں سے یوسف زئی کو اپنے بس میں لا سکا اور نہ ان کے ملک کے اس حصہ پر جس تک ان کی رسائی تھی ۔
ابو الفضل لکھتا ہے کہ اولس یوسف زئی پیشتر قندھار اور قرا باغ میں رہتی تھیں۔ وہاں سے کابل میں آکر چیرہ دست ہوئی۔ مرزا الغ بیگ کابلی نے دستان سرائی سے اس کا مارا دھاڑا۔ پس ماندے سے لمغانات میں آسائش سے رہنے گلے پھر اشنغر میں آگئے۔ سو برس کا عرصہ گزرتاہے وہ سواو دبجور میں رہزانی و سرتابی سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس سر زمین میں ایک گروہ رہتا تھا جس کا خطاب سلطانی تھا۔ ان کے عمدہ عمدہ مقامات اپنے قبضہ میں کر لئے۔ یوسف زئی کا بنگاہ کوہستان سوادو بجور میں ہے اور اکثر وہ دشت (میدان) میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس دشت کے دو طرف دریائے سندھ ہے اور باقی دو جانبوں میں دریائے کابل و کوہستان شاملی ہے۔ دلکشا سبزہ زار نگاہ فریب زمینیں ہیں جن کے دیکھنے سے خوشی ہوتی ہے۔
دریائے سندھ کے مغربی کنارہ پر جنگ باڑہ میں شیخ عمر کے قتل کے بعد جب اکبر بادشاہ نے یہاں(ملک یوسف زئی پر) یورش کی تھی تو یوسف زئیوں میں سے جو کلاں تر تھا وہ لابہ گری کرکے جب فرسا ہوا تھا اور پہلے اپنی بدکاری سے شرمسار ہو کر پیمان پرستاری استوار کیا تھا۔ ان میں سے کالو پر بادشاہ نے عنایت کرکے سب سے زیادہ سرفراز کیا مگر تھوڑے دنوں بعد بغاوت کرکے یہ قوم پھر اپنے آئین سابق پر مائل ہوئی۔ راہ زنی اور خلق آزادی پر کمر باندھی اور دارالخلافہ سے کالو بھاگ گیا۔
خواجہ شمس الدین خوانی نے نواحی اٹک سے دستگیر کرکے بادشاہ کے پاس بھیجا۔ بادشاہ نے بجائے پاداش کے اس پر نوازش فرمائی۔ پھر وہ بھاگ گیا اور اپنی پہلی بنگاہ میں پناہ لی اور یوسف زئی زمینداروں کی سرکشی کا بھی سبب ہوا۔ کالو خان پر باوجود یکہ بادشاہ نے بہت نوازش کی تھی مگر وہ بھاگ کر شورش منشوں سے جا ملا اور دمعار میں افغانوں نے اس کو اپنا سردار بنایا اور کوہ مورا کو روانہ ہوئے۔
بادشاہ نے بہت سے سپاہ اور افسروں کو زمین خاں کو کلتاش کو سپہ سالار بنا کر اور غریب خاں جہانی کو بخشی بنا کر روانہ کیا۔ تاکہ یوسف زئی کو سزا دیں۔ ۲۵ دی ۹۹۴ھ کو قرا بیگ وضیا ء الملک اور سپاہ کو بسر کردگی شیخ فرید بخش روانہ کیا۔ وہ ایک عمدہ تاخت کرکے الٹا چلا آیا اور بادشاہ سے عرض کیا کہ دشت کا کام بہت سخت ہے ۔ مناسب ہے کہ ایک فوج اور نامزد ہو تاکہ شائسہ طور پر قوم یوسف زئی کی بیخ کنی کی جائے۔ اس لئے بادشاہ نے مزید لشکریوں اور افسروں کو جانے کا حکم دیا ۔چنانچہ ۴ بہمن کو بہ سرکردگی سعید خاں اور ملک الشعراء فیضی اور دستر خواجہ دشیخ ابوالبرکات اور دیگر افسروں سمیت یوسف زئی کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوئے اور بادشاہ نے ان کو ہدایت کی کہ اگر کوئی بڑی لڑائی خود نہ کر سکیں توہم کو مطلع کریں۔
بادشاہ کو اطلاع ہوئی توکہا اگر اسی لشکر پر چھوڑ دیا جائے گا تو اس بدکار قوم کی فزونی اور کہوستان و تنگ ناؤں کی دشوار گزری سے کام دیر میں انجام پائے گا۔ اس لئے بادشاہ نے ۱۲ بہمن کو ایک اور تازہ لشکر بیربل کی سرکردگی میں روانہ کیا۔ بنیر کے فتح کے ارادہ سے اس طرف چلا۔ جب تھوڑی تنگ ناؤں کو لشکر طے کرکے منزل درک میں آیا تو افغانوں نے لڑنا شروع کیا۔ بڑی لڑائی ہوئی بہت مخالف اسیر و قتل ہوئے لیکن ناوقت ہوگیا تھا اور آگے کا حال معلوم نہ تھا۔ اس لئے لشکر خیمہ گاہ کو واپس آیا اور معلوم ہوا کہ اس طرف جانے مقصد حاصل نہیں ہوگا تو دشت (میدان) میں لشکر واپس آیا تاکہ دوسری راہ سے جائے۔
زمین خاں کو کلتاش کی طرف سے بادشاہ کے پاس عرضداشت آئی کہ بجور و سواد کا بڑا حصہ قبضہ میں آگیا ہے۔ مگر لشکر تھک گیا ہے اور گریوہ کراکر میں جو سوار اور بنیر کے درمیان ہے۔ افغان جمع ہوئے ہیں۔ اگر مزید لشکر جوانمردوں کو بھیجا جائے تو شائسہ طور پر سار املک قبضہ میں میں آجائے گا۔ اور سرکشوں کو سزا مل جائے گی۔ بادشاہ نے ۱۹ بہمن ۹۹۴ھ کو بہ سرکردگی حکیم ابوالفتح شمشیر بازوں کو بھیجا۔ تھوڑے عرصہ میں دونوں لشکر مل گئے۔ زین خاں نیا ول بجور کی فتح کا ارادہ کیا۔ وہاں تیس ہزار خانہ دار یوسف زئی رہتے تھے اور ان کے پس دشوار کشاگریوہ(درے) تھے۔ بادشاہی سپاہ چابک دستی کرکے دانش کول کے راستہ سے آئی۔ ان پر تاخت کی اور بہت سے سرکشوں کی مالش کی۔ جب وہ نہایت تنگ ہوئے تو یوسف زئی کے سرداروں غازی خان، مرزا علی اور طاؤس خان نے پناہ مانگی اور وہ ملنے آئے۔ دفعتاً شورش دور ہوئی۔ یہاں سے ولایت سولو کا قصد ہوا۔ وہاں کے کوہستان میں چالیس ہزار خانہ دار یوسف زئی رہتے تھے۔ جب لشکر شاہی دریائے پنجکوڑہ) کے کنارے پر پہنچا تو اس زمین کے (افغان) بہادروں نے جنگ میں قدم جمایا۔ لشکر کے ہر اوّل دستہ نے دریا سے گزرنے میں باگ کھینچی لیکن التمش نامی ایک خاص دستہ کے دلاوروں نے تیز دستی کی اس کی دیکھا دیکھی دیگر لشکر بھی اس راہ پر آئے بڑی لڑائی ہوئی غنیم ناکام بھاگ گیا۔
زین خاں کوکہ نے چکدرہ میں جو کہ وسط ولایت یوسف زئی میں ہے قلعہ کی بنیاد رکھی اور سرکشوں کی مالش کا قصد کیا۔ یہاں اس نے ۲۳ دفعہ فتح پائی۔ سات لشکروں کو شکستہ کیا۔ ولایت بنیر کا سارا ملک سوائے گریوہ کرا کرکے قبضہ میں آگیا۔ لیکن کارزار کی فرزونی اور پہاڑی جنگوں سے لشکر تھک گیا تھا۔ لہٰذا زین خان کو کہ نے کمک مانگی۔ بادشاہ نے دوسرے محاذوں پر جہاں پر راجہ بیربل اور حکیم ابو الفتح نامزد تھے تبدیل کرکے ان کو زین خاں کے ہاں نامزد کیا۔ چکدرہ میں یہ سب آپس میں ملے۔ چکدرہ سے کراکر کی طرف سپاہ چلی اور پانچ کوس چل کر موضع کانداک میں اتری۔ دوسرے روز یہ تدبیر ٹھہری کی آج ہر اول کچھ تاخت کرکے پھر آئے۔ صبح کو جب اس پر مخالف آئے تو لڑائی شروع ہوئی لیکن اقدام اور روادری بے روش ہوئی۔ افغانوں نے پیچھے خوب لوٹ مچائی۔
حسن خاں پٹنی زخمی ہو کر کنارہ کش ہوا۔ چلنے والوں پر کام بہت تنگ ہوگیا۔ زین خاں کو کہ کارزار میں آیا۔ اس دن اور تمام رات اور پھر دوسرے روز ہنگامہ جنگ خوب گرم رہا۔ مخالفوں کے چار سرگروہوں کو ’’کوکہ ‘‘نے خود اپنی بندوق سے مارا۔ افغان کچھ پریشان ہوئے۔ آخر دن کچھ فتح کی صورت معلوم ہوئی۔ مگر اونٹوں اور بیلوں کی باربرداری سب لٹ گئی جو اسباب ہاتھ اور خچر پر تھا وہ سلامت منزل پر پہنچا۔
دوسرے روز کچھ کوس چل کر انغاپور میں آئے۔ کوکہ نے چند آدمیوں کی افسری خود کی۔ تمام راہ جنگ کرتا ہوا منزل پر پہنچا۔ راجہ کے دائرہ پر پہنچ کر مجلس مشورہ منعقد کی۔ نیچے دست (میدان) کوراہ تھوڑی باقی تھی۔ لیکن نشیب و فراز میں ان کو نظر نہیں آتا تھا۔ سب نے یہ صلاح دی کہ مناسب یہ ہے کہ گریوہ (درہ) سے گزر کر چند روز قیام کریں اور مخالف کا ازر سر نو علاج کریں۔(جاری ہے )
بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی قوم پٹھان کی تاریخ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔