جیکب آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سندھ کے شہر جیکب آباد میں مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون پولیو ورکر کو اب پولیس کیساتھ ساتھ اپنے شوہر سے بھی خطرہ ہے، شہریوں نے متاثرہ خاتون کو انصاف دلانے کیلئے تحریک کا اعلان کردیا ہے۔
11 ستمبر کو ایک لیڈی پولیو ورکر کو پولیو مہم کے دوران تھانہ مولاداد کی حدود نواحی گاؤں اللہ بخش جکھرانی میں مسلح افراد نے اغوا ءکرکے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا اور خاتون کی نازیبا ویڈیو بھی بنائی گئی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے ”بی بی سی“ سے گفتگو میں میں متاثرہ خاتون نے بتایا کہ جیکب آباد میں پولیو مہم کے آخری دن ایک انجان شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ قریب جنگل میں ایک خاندان آباد ہوا ہے جس کے بچوں کو قطرے پلانے ہیں۔ انہوں نے انچارج کو فون ملایا جس نے ان کو جانے سے منع کیا تو اس انجان شخص نے ان پر پستول تان لیا اور ان کے ساتھی کو ڈرا کر بھگا دیا، لیکن خاتون کو گھسیٹتے ہوئے جنگل میں لے گیا، جہاں3 اور نقاب پوش افراد انتظار کر رہے تھے۔ جنہوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔
ڈپٹی کمشنرظہور مری نے پولیس کے ہمراہ جائے واردات پر پہنچ کر مغوی خاتون کو بازیاب کرایا اور سخت سیکیورٹی میں جمس اسپتال منتقل کیا۔ جہاں میڈیا سے گفتگو میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ خاتون نے دونوں ملزمان کی نشاندہی کردی ہے اور انہیں جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
پولیس نے بااثر افراد کے کہنے پر ڈکیتی کا مقدمہ درج کیا تھا، کیس میں نامزد ایک ملزم پولیس کی زیر حراست ہے جبکہ واقعے میں ملوث3 ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آسکی۔
تاہم اس کے بعد پولیو ورکر نے بیان دیا کہ پولیس ان کا بیان تبدیل کرانے کی کوشش کر رہی ہے، جس پر سندھ حکومت نے ڈپٹی کمشنر ظہور علی مری اور ایس ایس پی جیکب آباد ڈاکٹر سمیر نور چنا کا تبادلہ کر دیا۔لیکن لیڈی پولیو ورکر زیادتی کیس میں غفلت برتنے والے ایس ایس پی جیکب آباد اور ڈی سی جیکب آباد کے تبادلے کے باوجود مزید ملزمان کے خلاف تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
متاثرہ خاتون پولیو ورکر نے ویڈیو بیان میں انکشاف کیا کہ واقعے کے بعد پولیس اور ڈی سی جیکب آباد نے پہنچ کر اسپتال منتقل کیا، اسپتال میں طبی امداد ملنے کے بعد میں پولیس حراست میں تھی، پولیس اہلکاروں نے زبردستی کہا کہ جھوٹا بیان دو ورنہ نقصان ہوگا۔
بی بی سی کے مطابق جمیلہ نے اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ ان کا موبائل فون چھینا گیا اور اسی شکایت پر ان کی ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی تاہم جب سیشن کورٹ میں جج نے ان کا بیان قلمبند کیا تب انہوں نے بتایا کہ ان کا ریپ ہوا۔
خاتون نے کہا کہ زبردستی میرا بیان تبدیل کرانے والے پولیس اہلکار وردی میں تھے، ان پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔
خاتون کا دعویٰ ہے کہ ان پر پولیس کی جانب سے دباؤ تھا کہ وہ ریپ کا ذکر نہ کریں۔ اس لیے انہوں نے اپنے بیان میں صرف یہ بتایا کہ ان کے ساتھ چھینا جھپٹی ہوئی۔خاتون کے مطابق 2 روز کے بعد انہیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پیش کیا گیا، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی پر عدالت کو حقیقت سے آگاہ کیا۔
متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ سیشن جج نے یقین دلایا کے واقعے میں ملوث ملزمان کو سزا ضرور ملے گی، تب جاکر مجھے تسلی ہوئی۔
بعد ازاں جب خاتون نے سیشن کورٹ میں بیان دیا کہ ان کا ریپ ہوا ہے تو ایف آئی آر میں سیکشن 375 کو شامل کر دیا گیا۔ پاکستان پینل کوڈ میں سیکشن 375 ریپ سے متعلق ہے۔
خاتون نے کہا کہ واقعے کے بعد شوہر غصے میں تھا، شوہر نے مجھے کاری قرار دیا ہے اور اب انڑ قبیلے کے افراد مجھے غیرت کے نام پر قتل کریں گے۔انہوں نے اپیل کی کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
خاتون کا کہنا تھا کہ پولیو میں کام کر کے پیسے شوہر کو دیتی تھی، لیکن اب شوہر نے گھر سے نکال دیا ہے، میرا شوہر ریڑھی چلاتا تھا جس پر گھر کا چولہا جلتا تھا۔مجھے انصاف فراہم کیا جائے۔
جیکب آباد پولیس نے مبینہ ریپ کے ملزم اور خاتون کے شوہر کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔
شکایت کے ردعمل میں پولیس نے شوہر سے تفتیش کی جس پر پولیس کے مطابق شوہر نے اس معاملے کو غلط فہمی قرار دیا۔
پیر کو جیکب آباد کے شہریوں نے بھی متاثرہ ورکر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلی نکالی جس میں خواتین نے بھی شرکت کی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سماجی رہنما جان اوڈھانو نے کہا کہ ’پولیو ورکرز ہمارے مستقبل کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ انہیں عزت اور احترام دینا سماج اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہییں کہ وہ کون سے عناصر تھے جنہوں نے ریپ کیس کو ڈکیتی کا روپ دینے کی کوشش کی۔