تہران (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایران کی پاسدارانِ انقلاب نے ملک کی تیل کی صنعت پر گرفت مزید مضبوط کر لی ہے ۔ وہ ان برآمدات کا تقریباً نصف حصہ کنٹرول کرتے ہیں جو تہران کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے اتحادی گروہوں کو فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ یہ بات مغربی حکام، سیکورٹی ذرائع اور ایرانی اندرونی ذرائع نے بتائی ہے۔ ایرانی حکومت نے 2013 کے بعد پاسدارانِ انقلاب اور قدس فورس کو نقد رقم کی بجائے تیل فراہم کرنا شروع کیا تاکہ پابندیوں کے دوران آمدنی حاصل کی جا سکے۔
خبر ایجنسی روئٹرز کی ایک تحقیق کے مطابق تیل کی صنعت کے تمام پہلو، بشمول وہ خفیہ بیڑے جو پابندیوں کے باوجود خام تیل کی ترسیل کرتے ہیں، لاجسٹکس، اور وہ فرنٹ کمپنیاں جو یہ تیل فروخت کرتی ہیں، زیادہ تر پاسدارانِ انقلاب کے کنٹرول میں ہیں۔پاسدارانِ انقلاب ایک طاقتور سیاسی، فوجی اور معاشی قوت ہے، جس کے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔پاسدارانِ انقلاب اپنے بیرونی آپریشنز کے بازو قدس فورس، کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ رکھتی ہے۔ یہ فورس لبنان میں حزب اللہ، غزہ میں حماس، یمن کے حوثی باغیوں اور عراق میں ملیشیا کو فنڈ، اسلحہ، ٹیکنالوجی اور تربیت فراہم کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین ایران کے خام تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ زیادہ تر تیل وہاں کی آزاد ریفائنریوں کو فراہم کیا جاتا ہے، اور پاسدارانِ انقلاب نے اس تجارت کو آسان بنانے کے لیے فرنٹ کمپنیاں قائم کی ہیں۔پاسدارانِ انقلاب نیشنل ایرانی آئل کمپنی کی قیمتوں سے ایک سے دو ڈالر فی بیرل کم پر تیل فروخت کرتی ہے تاکہ خریداروں کو زیادہ خطرہ مول لینے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔ایران کی قومی آئل ٹینکر کمپنی پاسدارانِ انقلاب کے لیے خدمات فراہم کرتی ہے تاکہ تیل کی اصل کو چھپایا جا سکے۔
امریکہ اور اسرائیل نے پاسدارانِ انقلاب اور قدس فورس سے وابستہ بحری جہازوں اور کمپنیوں پر متعدد پابندیاں عائد کی ہیں، تاکہ ان کی تیل کی برآمدات کو محدود کیا جا سکے۔ ایرانی تیل کی آمدنی 2023 میں 53 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی جو 2018 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ اس میں سے ایک بڑا حصہ پاسدارانِ انقلاب اور قدس فورس کے منصوبوں کے لیے مختص کیا جاتا ہے، جو کہ حزب اللہ جیسے گروہوں کو فنڈ فراہم کرتے ہیں۔