مصنف،: محمد سعید جاوید
قسط:95
ایک بار پھر ہم دونوں ہی میدان میں تھے اور جہاز سے کوئی فرلانگ بھر دور نکل آئے تھے ایسا لگتا تھا کہ بھاگ دوڑ کا یہ سلسلہ کم از کم آج کی تاریخ میں تو ختم ہونے والا نہیں تھا۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ جب دو چارہاتھ لب بام رہ گیا تو تیز ہوا اس کو مزید بیس قدم دور اڑا کر لے گئی۔
پھر ہم دونوں نے ایک ساتھ ہی ہمت ہاری تھی۔ پہلے تو وہ موٹا دھم سے زمین پر بیٹھ گیا، اس کا سانس اکھڑ گیا تھا اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ ابھی قے کر دے گا۔ اسے دیکھ کر میرے حواس بھی ساتھ چھوڑ گئے اور میں بھی رک گیا اور پھر میری آنکھوں کے سامنے ہی ایک بڑا بگولہ نما جھونکا میرے ٹکٹ کو اٹھا کر آسمان کی بلندیوں کی طرف لے گیا اور پھر وہ کہاں گیا کچھ خبر ہی نہ ہوئی۔ قدرتی طور پر میں پریشان تھا کہ میرا ایک طرف کاٹکٹ ضائع ہوگیا اور یہ کہ اب شائد مجھے نیا خریدنا پڑے یہ کم از کم 80 پاؤنڈ کا خرچہ تھا۔
ہم دونوں ہارے ہوئے لشکر کے سپاہیوں کی طرح اپنے مرکز یعنی جہاز کی سیڑھیوں کی طرف لوٹ آئے۔واپس آتے وقت پھولے ہوئے سانسوں میں اس نے مجھے مشورہ دیا کہ میں بالکل فکر نہ کروں وہ کپتان کو کہہ کر ابو سمبل ایئرپورٹ والوں کو اطلاع کرا دے گا اور وہاں اترتے ہی میرا متبادل ٹکٹ مجھے مل جائے گا۔
جہاز میں داخل ہوا تو سب مسافر مجھے ہمدردی سے دیکھ رہے تھے۔ ایک دو شرارتی قسم کے امریکی ابھی تک مسکرا رہے تھے۔ غرض اس بھاگ دوڑ کی وجہ سے جہاز کوئی 10 منٹ تاخیر سے اڑا۔ جہاز کا کپتان اپنے کاک پٹ سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا جیسے ہی سیٹورڈ نے ایک پرچی پر میرا نام اور دیگر کوائف لکھ کر اسے تھمائے اس نے فوراً ابو سمبل ایئرپورٹ پر وائرلیس سے پیغام دے دیا۔
کوئی ایسی لمبی چوڑی فلائٹ نہ تھی اس لئے جہاز کو زیادہ بلندی پر اڑانے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور وہ نیچے نیچے ہی پرواز کرتا رہا۔ جس سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم نے اس سارے علاقے کا ایک طائرانہ جائزہ لے لیا اور بار بار نظر آتی جاتی ناصر جھیل کی خوبصورتی سے محظوظ ہوتے رہے۔یہ فرض کر کے کہ سارے مسافر اپنے ہوٹلوں سے ناشتہ کرکے اور چائے پانی پی کر آئے ہوں گے، ایئرلائن والوں نے مشروبات کا تکلف بھی نہ کیا، بلکہ وہ موٹا سٹیورڈ تو اپنی کرسی سے ہلا تک بھی نہیں اور وہیں بیٹھا اپنی تھکن اور سانسیں درست کرتا رہا۔
ابو سمبل کا ایئرپورٹ اس وقت ریلوے کے ایک درمیانے سے سٹیشن کی طرح کی عمارت میں بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ہال اور2 کمروں پر مشتمل تھا۔ یہاں کوئی بھاگ دوڑ یا چہل پہل نہیں تھی، بلکہ یہ سنسان ہی نظر آ رہا تھا۔ یہاں اسوان سے دن میں 2پراوزیں آتی تھیں،جن میں یہی جہاز استعمال ہوتا تھا۔ جیسے ہی میں جہاز سے اتر کر ہال میں آیا تو وہاں ایئرلائن کا ایک مصری ملازم ہاتھ میں میرے نام کا پلے کارڈ لئے کھڑا تھا۔ میں اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے اشارے سے مجھے استقبالیہ کاؤنٹر کی طرف جانے کو کہا۔ وہاں میرا متبادل ٹکٹ تیار پڑا تھا۔ کاؤنٹر پر کھڑے ہوئے لڑکے نے پہلے تو آج کے واقعہ پر افسوس اور ہمدردی کا اظہارکچھ اس ندامت سے کیا جیسے اس حادثے میں سارا قصور اسی کا تھا۔ اور پھر مجھے اسوان واپسی کا ٹکٹ تھما دیا۔ اسی سارے عمل میں بمشکل 5 منٹ کا وقت لگا ہوگا جو ایک بڑی ہی متاثر کن بات تھی اور تحسین کے لائق تھی۔ ان کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا جہاں ایئر لائن والوں کی طرف سے دی جانے والی ایک کوسٹر بس کھڑی تھی۔ میں بھی چھلانگ مار کر اس میں سوار ہوگیا اور وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں