انسان کی زندگی میں کچھ عادتیں ایسی بن جاتی ہیں جن کے بغیر اس کا گزارا ممکن نہیں ہوتا اور بعض لوگوں کے لیے تو نشے کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اس لحاظ سے کہ جس طرح نشے کے بغیر انسان لاچار اور مجبور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ان چیزوں اور عادتوں کے بغیر اس کا پل پل کاٹنا مشکل ہوجاتا ہے یا یوں کہیں کہ وہ اس پر سوار رہتی ہیں۔ ہر تھوڑے دن میں کوئی نئی عادت یا شوق نشے میں ڈھل جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھیں۔
دولت، عورت، کبھی علمی فوقیت کا سر پر سوار رہنا اور جب تک داد وصول نہ ہوجائے اس وقت تک بے چین رہنا، کبھی اعلیٰ اور بااثر شخصیات کی صحبت، کبھی فیس بک اور واٹس ایپ تو کبھی فلموں اور ڈراموں کا نشہ وغیرہ۔۔۔ اس میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو عادتیں پختہ بن جاتی ہیں یا نشے کے درجے پر پہنچ جاتی ہیں، اس میں سرشاری، لذت و لطف حاصل ہوتا ہے۔ اور جب وہ حاصل نہیں ہوتا تو اس انسان کے سکون کو تباہ کر دیتا ہے، وہ بے چین رہتا ہے یہاں تک کہ نشہ پورا کرنے کا موقع مل جائے یا نشہ مہیا ہوجائے۔
اسی لڑائی میں انسان اپنے نفس کے ساتھ جنگیں کرتے کرتے زندگی بتاتا ہے۔ کبھی وہ جیت جاتا ہے تو نفس ہار جاتا ہے اور کبھی وہ خود ہی نفس کے قابو میں آجاتا ہے۔ اس طرح کی کوئی بھی عادت غیر ضروری طور پر ہم پر اپنا تسلط جما لیتی ہے جبکہ اس کے بغیر گزارا ممکن ہے بلکہ بہت اچھا ممکن ہے لیکن انسان مصنوعی طور پر اس کو اپنے اوپر مسلط ہونے دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ سکون جو اسے ان عادات کے بغیر مہیا تھا وہ ان کو پورا کرکے اسے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے غیر ضروری، غیر پاکیزہ عادتیں ہمیشہ بربادی کا باعث بنتی ہیں۔
انسان اس دنیا میں اچھی زندگی گزارے، حدود میں رہتے ہوئے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن حب دنیا۔۔۔ یعنی love of the worldly pleasure without moderation) انسان کو اپنے پیچھے زیادہ سے زیادہ بھگانا چاہتی ہے اور وہ جس قدر بھاگتا ہے اسی قدر مزید بھگانے پر اکساتی ہے۔ ایک خواہش یانشہ پورا ہوتے ہی دوسری بار کی طلب شروع ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ موت تک جاری رہتا ہے۔
اس کے برعکس ایک پاکیزہ سرور اور خوشی کی قسم، وہ حالت بھی ہوتی ہے جب انسان اپنے رب کے حوالے سے کوئی دریافت (discovery) کرتا ہے، اس کے انداز اور حکمتیں اس پر بے نقاب ہوتے ہیں۔ اس کی تخلیق کے غیر معمولی پہلو اس پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کی وحدانیت پر اس کو یقین ہوجاتا ہے اور رب کی اعلی صفات اسے گم کر دیتی ہیں۔ وہ اس کو داد دیے بغیر نہیں رہ پاتا، اس یقین کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ زندہ اور موجود ہستی کے طور پر سمجھ میں آجاتے ہیں، اب اسے اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرکے اتنا سکون ملتا ہے کہ۔۔۔ اس نے سن لیا جو تمام قوتوں اور طاقتوں کا مالک ہے مجھے وہ کافی ہے، اس کے دل میں اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرکے راحت پیدا ہوتی ہے، احساس تشکر سے وہ سرشار ہوتا ہے جب اس کی نظر ان تمام نعمتوں پر پڑتی ہے جو دن رات اسے بغیر مانگے ملی ہوئی ہیں۔ بار بار اللہ تعالیٰ کے لیے محبت محسوس کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس نے پہچاننا شروع کر دیا ہوتا ہے اور اس کو پہچاننے کا یہ سلسلہ انسان کے ذوق و شوق پر ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس کے آگے ایسے جھکا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی تمام کامیابیوں کا کریڈٹ دیتا ہے، اور ہمیشہ اپنی کامیابیوں کو اسی سے متعلق کرتا ہے جس سے اس پر اپنی ذات کی برتری کے بجائے اللہ تعالیٰ کی برتری قائم ہوجاتی ہے۔ یہ نقطہ نظر اور سوچ قرآن کے مطالعے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں غور و فکر کے ذریعے انسان شعوری سطح پر اپنے رب تک پہنچ جاتا ہے۔
اس قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا مطلب سمجھ جاتے ہیں کہ۔۔۔۔ اللہ کی یاد سے ایمان اور تقویٰ کی زندگی گزارنے والے اطمینان قلب میں جیتے ہیں۔ ان کی مزید خوبیاں یہ ہوتی ہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف حالات ہوں یا ان کی چاہت کے مطابق یعنی اچھے حالات ہوں یا بْرے، ان کی شخصیت پرسکون ہوتی ہے۔ مایوسی چھو کر بھی نہیں گزرتی، الزام تراشی سے ان کے ذہن دور دور تک خالی رہتے ہیں۔
چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں جڑے ہوتے ہیں لہٰذا اس سے گفتگو، دعا و مناجات کرنے کے علاوہ اس کی حکمتوں پر ان کی نظر پڑتی ہے تو ذہنی انتشار اور وقتی پریشانی امیدوں کی روشنی پا لیتا ہے۔ ایسے لوگ اس بات پر اصرار نہیں کرتے کہ جو ہم مانگیں وہی ہمیں ملے بلکہ وہ نفس مطمئنہ کے درجے پر فائز رہتے ہوئے اپنے رب کی رضا پر راضی اور قانع ہوتے ہیں۔ رب ان کے ساتھ اچھا ہی کرتا ہے، اس بات پر ان کا یقین اتنا پختہ ہوتا ہے کہ اپنی ذات اور تکالیف بھی انہیں بھول جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ پر ایسا یقین اور مثبت رویہ دل کے اطمینان کی وہ کنجی ہے جس کا ذکر اس مفہوم میں آتا ہے کہ:
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
اچھی طرح سن لو کہ دلوں کا سکون اللہ (سے مضبوط تعلق، اچھا سوچنے، اس پر بھروسہ کرنے اور دعا و مناجات کرکے اس) کو یاد رکھنے میں ہے۔
۔
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا اتفاق کرنا ضروری نہیں ہے ۔