خالہ کی طبیعت خراب تھی۔امی ابو ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر گئے ہوئے تھے۔گھر میں دو بہن بھائی کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔اْسامہ اور فلک کمرے میں بیٹھے باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک دم گھر کے پچھلے حصے سے کچھ گرنے کی آواز آئی۔جس سے وہ دونوں ہی چونک پڑے۔
”بھائی!یہ کیسی آواز تھی۔“فلک کے چہرے پہ ہوائیاں اْڑنے لگیں۔اس وقت کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی،جسے سن کر اْسامہ کا بھی رنگ فق ہو گیا۔قدموں کی آواز اب قریب آتی جا رہی تھی۔اْسامہ نے ہمت کرکے کمرے کا دروازہ کھولا۔اپنے سامنے کھڑے آدمی کو دیکھ کر بے اختیار اْسامہ کی چیخ نکل گئی۔فلک کی آواز خوف کی وجہ سے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔
”ارے بند کرو یہ چیخنا۔“وہ ایک چور تھا۔جو گھر کو خالی سمجھ کر دن کے وقت گھر کے اندر گھس آیا تھا۔”اچھے بچوں کی طرح چپ چاپ ادھر بیٹھ جاؤ۔جب تک میرا کام مکمل نہیں ہو جاتا۔یہاں سے ہلنا مت۔“دھان پان سے اس چور نے ان دونوں پہ رعب ڈالنے کی کوشش کی۔وہ ان دونوں کو کمرے سے لاؤنج میں لے آیا تھا۔سب سے پہلے اس نے باورچی خانے میں جا کر کھانا کھایا۔دونوں بچے حیرت سے باورچی خانے کی کھڑکی جو لاؤنج میں کھلتی تھی،یہ منظر دیکھ رہے تھے۔
”میرے پاس پستول بھی ہے۔اگر کوئی ہوشیاری کی تو مجھ سے بْرا کوئی نہیں ہو گا۔“اْسامہ کو اپنی جگہ سے ہلتا دیکھ کر وہ وہیں سے چلایا۔
امی ابو کے کمرے کا پوچھا اور دونوں کو لے کر کمرے میں چلا گیا۔
”چلو اب اچھے بچوں کی طرح مجھے الماری کی چابی نکال کر دو۔“
اْسامہ نے کسی روبوٹ کی طرح چلتے ہوئے چابی اس کے حوالے کر دی۔
چور جلدی جلدی الماری کھول کر سامان کی تلاشی لینے لگا۔اس نے وہ دراز بھی کھولی،جس میں زیورات اور پیسے وغیرہ رکھے ہوتے تھے۔اْسامہ فوراً بول پڑا:”مجھے باتھ روم جانا ہے۔“
”جاؤ،لیکن کوئی ہوشیاری نہ کرنا تمہاری بہن میرے قبضے میں ہے۔“
جب دیر تک اْسامہ واپس نہ آیا تو چور فلک کو ڈھال بنا کر باہر نکلا۔اس کی نظر باورچی خانے پر پڑی جہاں اْسامہ دونوں ہاتھ پیچھے کرکے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”یہ تم نے ہاتھ کیوں پیچھے کر رکھے ہیں،دکھاؤ مجھے کیا ہے ہاتھ میں۔“
”میں نہیں دکھاؤں گا۔“
”کیسے نہیں دکھاؤ گے۔“اس نے پنجے جھکتے ہوئے اس کے ہاتھ آگے کرنا چاہے۔اْسامہ نے تیزی سے اپنے ہاتھ میں بھری پسی لال مرچیں اس کی آنکھوں میں ڈال دیں۔چور بْری طرح چلانے اور اْچھلنے لگا۔
وہ دونوں سرپٹ لاؤنج کی جانب دوڑے اور گھر سے باہر نکل کر کسی کو مدد کے لئے بلانے کے لئے دروازہ کھولنے ہی والے تھے کہ باہر سے ابو نے دروازہ کھول دیا۔
گھر میں گھستے ہی چور کے چیخنے کی آواز نے ان دونوں کو ہی چونکا دیا۔ابو نے باورچی خانے کا رْخ کیا اور امی نے ان دونوں کی حالت دیکھ کر ان کو بانہوں میں بھر لیا۔چور کو کرسی پہ بٹھا کر امی کے دوپٹوں سے باندھا گیا اور پولیس کو اطلاع دی گئی۔پولیس اسٹیشن گھر کے قریب ہونے کی وجہ سے پولیس افسر بھی جلد ہی آ گئے۔چور کو مارتے ہوئے گھر سے لے گئے۔اْسامہ اور فلک کو ڈھیر ساری شاباشی ملی۔انسپکٹر صاحب نے چور کی پستول اْسامہ کے حوالے کر دی،کیونکہ وہ کھلونا پستول تھی۔