ناہید ورک کا تازہ شعری مجموعہ، کوئی نہیں دوست

Jan 18, 2025

نسیم شاہد

ہر نئی کتاب اس بات کا پیغام دیتی ہے کہ تخلیق کے سوتے خشک نہیں ہوتے۔ شعور، آگہی اور فکرو نظر کے ارتقاء میں کتابوں نے جتنا اہم کردار اداکیا ہے، کوئی دوسرا ذریعہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جس معاشرے میں کتابوں سے محبت موجود ہو وہ معاشرہ فکری لحاظ سے کبھی بانجھ نہیں ہوتا۔ پاکستان کا شمار ایک ایسے معاشرے میں ہوتا ہے جہاں کتاب سے دوستی ایک احسن عمل سمجھا جاتا ہے، ہر سال ملک میں ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں جو ہمارے سماج کی روایت اور تہذیب کے نکھار میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہمارے وہ اہل قلم جو بیرون ملک مقیم ہیں، جب بھی اردو میں اپنے تخلیقی اظہار کو قلمبند کرتے ہیں تو اپنی کتاب پاکستان سے چھپواتے ہیں تاکہ پاکستان کے کتاب دوستوں تک ان کی کاوش کے ثمرات پہنچ سکیں۔ مشی گن امریکہ میں مقیم شاعرہ ناہید ورک کا شمار بھی ایسے ہی تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق شیخوپورہ سے ہے تاہم اب ایک عرصے سے امریکہ میں رہتی ہیں۔ شاعری کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتی ہیں۔ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ”کوئی نہیں دوست“ حال ہی میں بک کارنر جہلم سے شائع ہوا ہے۔ یہ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کے دوشعری مجموعے، ”تیرے نام کی آہٹ“ اور ”گیلی چپ“ منظر عام پر آکر قارئین کی بھرپور داد حاصل کر چکے ہیں۔ ناہید ورک بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں، تاہم انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں اور نظم میں بھی ان کا رنگ نمایاں اور منفرد ہے۔ شاعری کو جب آپ اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں تو وہ از خود بولنے لگتی ہے وہ ایک ایسی لہربن جاتی ہے جو محسوسات اور جذبوں کے ساتھ پڑھنے والے کے دل میں اترتی ہے۔ ناہید ورک کی شاعری پڑھتے ہوئے ایک ایسا ہی احساس ہوتا ہے۔ اس تازہ مجموعہ کلام کے بارے میں وہ لکھتی ہیں:

”کوئی نہیں دوست کی شاعری گزشتہ 14برس سے میری رفاقت میں رہی اور اب آپ کے سپرد ہے۔ میری سوچ کے کسی بیج کو آپ کے ذہن کی زرخیز زمین میں اگر نمو مل جائے اور کوئی ایک تناور درخت اگ آئے تو سمجھوں گی میری محنت کا ثمر مل گیا“۔

14برس میں شاعری کی اگلی کتاب لانا اس بات کی گواہی ہے ناہید ورک شاعری کو کسی ٹکسال میں ڈال کر نہیں نکالتیں بلکہ ان کے اندر کی دنیا جب کسی غزل، کسی شعر کی اجازت دیتی ہے تو وہ اسے سامنے لاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ ان کی غزلیں اردو کے موجودہ شعری افق پر اپنی ایک خاص انفرادیت اور پہچان رکھتی ہیں۔ان کے لہجے کی اب باقاعدہ ایک شناخت موجود ہے اور شعر یا غزل پر نام نہ بھی لکھا ہو تو پہچانی جاتی ہے۔ ناہید ورک نے دو دنیاؤں کا سفر کیا ہے۔ ایک قدامت پسند معاشرے سے جدت پسند معاشرے کی طرف سفر نے ان کے اندر بہت سے تلاطم برپا کئے ہیں لیکن جس طرح ان کی شخصیت میں اپنی مٹی کا تہذیبی رچاؤ موجود ہے اسی طرح ان کی شاعری میں بھی اسی تہذیب کی بو باس نظر آتی ہے،جس سے ان کا خمیر اٹھا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے انہیں شعری روایت کا مکمل ادراک ہے۔ پھر ان کی زبان پر کاملیت سے گرفت اور شعری لوازمات سے گہری آگاہی، ان کے شعری اوصاف کو عصر حاضر کے بڑے شاعروں میں لاکھڑا کرتی ہے۔ ان کا یہ شعری مجموعہ ان کے شعری سفر میں آنے والے ارتقاء کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ مضامین کی ندرت، نزاکت خیال، طرزِ احساس کی گہرائی اور لمحہء موجود کی حیات سے ہم آہنگ بیانیے نے ان کے اس شعری مجموعے میں شامل غزلوں کو توشہء خاص بنا دیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے دواشعار:

کوئی تو بات اس کی مان لیتی

محبت عمر میں مجھ سے بڑی تھی

محبت میں بڑی خوش فہم تھی میں 

مجھے اپنی نظر ہی لگ گئی تھی

ایسے اشعار قاری کو چونکا دیتے ہیں۔ جذبوں کے نام تو ایک ہی رہتے ہیں تاہم ان کے اندر لفظوں کی نیت ایک نیا ذائقہ بھر دیتی ہے۔ ان اشعار میں محبت کا جس طرح استعمال ہوا ہے وہ اس جذبے کو ایک مجسم صورت میں پڑھنے والے کے سامنے لے آتا ہے۔ ناہید ورک نے عمومی شاعری سے ہٹ کرخاص طرزِ احساس کی شاعری کو تخلیق کیا ہے جس طرح پروین شاکر نے خوشبو سے خود کلامی تک کے سفر میں کئی منزلیں طے کی تھیں اسی طرح ناہید ورک نے اپنے دو شعری مجموعوں کے بعد اس تیسرے شعری مجموعے ”کوئی نہیں دوست“ تک ایک لمبا سفر طے کیا ہے۔ کتاب پر رفیق الدین راز، اشفاق حسین، جاوید ضیا، مونا شہاب اور غضنفر ہاشمی کی آراء موجود ہیں۔ اشفاق حسین اور مونا شہاب نے بڑی جامعیت کے ساتھ ناہید ورک کی غزل کا محاکمہ کیا ہے۔ ایک اچھی شاعری خود بخود ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ ”کوئی نہیں دوست“ کی شاعری ایک ایسی خلاق شاعرہ کے دل کی کتھا نظر آتی ہے جس نے زندگی کو ایک روشن اور منزہ آنکھ سے دیکھا ہے۔ جس کے باطن میں ایک ایسی روح موجود ہے جو کائنات کو ان خوابوں کے مطابق دیکھنا چاہتی ہے جو اس کے اندر محو گردش ہیں۔ غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے اس میں قدم جمانا آسان نہیں ہوتاکیونکہ اردو شاعری کا بنیادی حوالہ ہی غزل ہے۔ کلاسیکی شاعری سے لے کر دور جدید کی شاعری تک غزل نے اردو شاعری کو اپنی چھتر چھاؤں سے نہیں نکلنے دیا۔ ایسے میں اگر کوئی شاعر غزل میں کچھ اضافہ کرتا ہے تو یہ اس کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ناہید ورک کی غزل کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے وہ ایک جست آگے کی غزل ہے۔ جس میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور طرزِ احساس کا نیا پن بھی اور سب بڑی بات یہ کہ اس کی ڈکشن،لہجہ اور انداز بھی کچھ ہٹ کے نظر آتا ہے۔

ناہید ورک کی غزلوں کا فنی کینوس مختصر طور پر مبنی ہے۔ چھوٹی بحر میں غزل کہنا بظاہر آسان لگتا ہے مگر یہ تنگنائے کو سمندر میں بدلنے کا عمل ہے۔ اس مجموعے میں شامل بیشتر غزلیں مختصر بحر میں لکھی گئی ہیں تاہم ان کے ہر شعر کا مفہوم اور موضوع قاری کو چونکا دیتا ہے۔ مترنم بحروں میں ناہید ورک نے معانی کے ایسے جہاں آباد کئے ہیں جو ان کی غزل کے امکانات کو آخری حدوں تک لے جاتے ہیں۔ اچھی شاعری وہی ہوتی ہے جو قاری کو ورطہء حیرت میں ڈال دے جو اسے ایک طرف عرفان ذات کا شعور بخشے اور دوسری طرف اس ترفع کا احساس دلائے جو اعلیٰ تخلیق کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے۔ ناہید ورک کی شاعری یہ دونوں کام کرتی ہے۔ ان کے زرخیز ذہن کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ فکر و نظر اور داخلی و ظاہری کیفیات کی ان منزلوں تک لے جاتا ہے جہاں انسانی بساط کے پر جلتے ہیں۔

مجھ میں پہلے تو فقط میں تھی مگر اب وہ ہے

یہ زیاں ہے ہی نہیں میرا زیاں ہوتے ہوئے

پھر ہے تقدیر مرے مدِ مقابل ناہید

خود کو پھر دیکھ رہی ہوں میں دھواں ہوتے ہوئے

مزیدخبریں