کچھ ذکر شہر حائل کا

Mar 18, 2018 | 05:16 PM

ظفر اللہ اقبال

حائل سعودی عرب کی ایک ریجن ہے جبکہ کل ریجن  13 ہیں۔ حائل کا رقبہ 103,3887 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 597,144 ہے  ۔ حائل صوبے کا صدر مقام ہے حکومت واحدانی طرز کی ہے، بادشاہ کا حکم یکساں لاگو ہے۔ اس میں پہاڑی سلسلہ بڑا بے ہنگم ہے ، اس کی وادی کا نام ”شمر“ ہے۔ اس وادی کے رہنے والے اپنے نام کے آخری میں ”شمری“ لگاتے ہیں۔ امام حسینؓ کو کوفہ میں جس شخص نے شہید کیا تھا اس کی عرفیت بھی ”شمر“ تھی اور وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا۔ حائل میں مسجدیں بہت زیادہ ہیں۔ میں جہاں رہائش پذیر ہوں ہوں اس کے نزدیک ترین تین مسجدیں ہیں لیکن جمعہ کی نماز صرف ایک مسجد جو سب سے بڑی میں ہوتی ہے۔ مسجد میں وضو کرنے کے لئے سردیوں میں گرم پانی ہوتا ہے، مسجد میں قالین بچھے ہوتے ہیں اور جولوگ کھڑے ہوکر نماز نہیں پڑھ سکتے ان کے لئے کرسیاں موجود ہوتی ہیں۔ قرآن پاک تلاوت کے لئے بکس بنے ہوئے ہیں۔ ٹشو پیپر کے علاوہ پانی کی بوتلیں بھی موجود ہیں ،اس سے عربیوں کی سخاوت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
نماز کی ادائیگی کے لئے کاروبار بند ہوجاتا ہے۔ بازار، دکانیں بند ہوجاتی ہیں، نماز کے ختم ہونے پردوبارہ کاروبار کھل جاتا ہے۔ بازار، مارکیٹیں بھی کھل جاتی ہیں۔ کیا مجال ہے کہ کوئی دکان کھلی رہے اور خرید و فروخت ہو۔ گھروں کے باہر بڑے ڈرم رکھے جاتے ہیں جن میں گھر کا کوڑا کرکٹ اٹھاکٹھا ہوتا ہے۔ یہاں گھروں کی صفائی خود کرنی پڑتی ہے۔ صفائی کا بہت اچھا انتظام ہے، گاڑیاں گھروں کے باہر سڑک کے ایک طرف کھڑی کی جاتی ہیں، مجال ہے کوئی گاڑی چوری ہوجائے۔ ایک گھر میں جو مرد گاڑی چلانے کے قابل ہوتے ہیں، ان کی اپنی گاڑی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی طرح پرانی گاڑیاں استعمال نہیں ہوتیں، عربی پرانی گاڑیوں کو پھینک دیتے ہیں، فروخت نہیں کرتے، شہر میں پالولشن بالکل نہیں ہوتی ۔صاف پانی پینے کے لئے ہر کسی کو میسر ہے، باقی کپڑے دھونے اور نہانے کے لئے وافر مقدار میں پانی ہر گھر میں میسر ہے، میں نے تین مہینوں میں کبھی پانی ختم ہوتے نہیں دیکھا، حالانکہ سعودی عرب میں پانی کی کمی پائی جاتی ہے۔ جمعہ کو عام تعطیل ہوتی ہے، لوگ نماز کی ادائیگی کے لئے کافی عرصہ پہلے پہنچ کر تلاوت میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ نماز میں صرف فرض نماز ادا کرتے ہیں۔ صلوٰة نماز چند لوگ ہی پڑھتے ہیں۔
سعودی عرب کا سٹینڈرڈ ٹائم پاکستان کے ٹائم سے دو گھنٹے پیچھے ہے۔ یہاں لوگ رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھتے ہیں اور افطاری کے وقت کھانے کے لئے دسترخوان بچھا کر لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
مسجدوں کے باہر عورتیں بھیک مانگتی ہیں اور عام عربی بھی جیب سے ریال نکال کر دیتا ہے۔ مانگنے والی عورتیں جھولی پھیلادیتی ہیں، منہ سے کچھ نہیں کہتیں ۔
یہاں پاکستان کی طرح مسجدوں کے باہر پولیس کھڑی نہیں ہوتی، پولیس کی گاڑی صرف سڑکوں پر ہی کہیں نظر آتی ہیں ۔ موٹرسائیکل کی سواری نہ ہونے کے برابر ہے ۔ حائل کے بڑے تھوڑے حصہ پر کاشتکاری ہوتی ہے، پانی فوارے کی شکل میں پودوں پر گرایا جاتا ہے۔ کھجور کے درخت بڑے قرینے سے سڑک کے درمیان خالی جگہ پر لگائے جاتے ہیں، کھجور کے درخت اور زیتون کے درخت بھی عام ہیں۔
حائل شہر کٹورے کی صورت میں آباد ہے۔ درمیان میں خالی ہے، جیسے جیسے ضرورت ہوتی ہے درمیانی حصے کو استعمال میں لایا جاتاہے۔ یہاں پارک کافی موجود ہیں۔ لوگ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد بلا ناغہ پارکوں کا رُخ کرتے ہیں اور لنچ پارک میں ہی کرتے ہیں۔ چائے کافی عام مل جاتی ہے، مکانات ایک ہی طرز کے باہر سے نظر آتے ہیں جو خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، تیل عام ہے اور بہت سستا ہے۔ بجلی تیل سے پید اکی جاتی ہے جو زیادہ مہنگی نہیں ہے۔ ایک یونت کی قیمت 40 حلالہ مقرر ہے جس میں دس حلالہ حکومت رعایت دیتی ہے اور باقی 30 حلالہ لوگ ادا کرےت ہیں۔ عربی کافی خوشحال ہیں۔ بادشاہ نے عوام کو ہر سہولت پہنچائی ہوئی ہے۔ یہاں غیر سعودی مکان خرید نہیں سکتا بلکہ گھر کا ایک پورشن کرائے پر لے سکتا ہے، جس کا کرایہ مکہ، مدینہ، جدہ سے بہت کم ہے۔ بنگلہ دیشی یہاں ملتے ہیں جو صفائی کا کام سرانجام دیتے ہیں اور بہت تھوڑے بنگلہ دیشی مناسب درمیانے درجے کے ملازم ہیں۔ بنگلہ دیشی عملہ کام کے لحاظ سے یہاں بہت پسند کیا جاتا ہے۔
جیسے جیسے تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں حکومت غیر سعودیوں کو واپس اپنے ملکوں کو بھجوارہی ہے، جو ضرورت کا عملہ ہے اس کو رکھا ہو اہے اور ان کے ہر فرد پر ٹیکس ہے جس سے غیر سعودی اپنے بیوی بچوں کو اپنے اپنے ملکوں کو بھجوارہے ہیں تاکہ ٹیکس سے آمدنی بہت کم ہو جاتی ہے جس سے غیر ملکی ملازم بہت تنگ ہیں۔
ایک روز پارک میں واک کرتے ہوئے دو آدمی ٹریک پر ملے ۔جب میں نے ملک دریافت کیا تو اردو زبان میں کہنے لگے کہ بنگلہ دیش۔ میں نے جب اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ آپ پاکستانی ہیں۔ پوچھنے پر کہ ان کو کیسے معلوم ہوا، انہوں نے کہا کہ آپ کا لباس اور آپ کی جسمانی بناوٹ دیکھ کر البتہ نام آپ نے تعارف پر بتادیا۔میں نے دوسرا سوال کیا کہ بنگلہ دیشی حکومت تو پاکستان سے بہت نفرت کرتی ہے جس کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ یہ مرد یا عورت پاکستان کو اچھا سمجھتا ہے اور بنگلہ دیش میں رہتا ہے تو اس پرمقدمہ قائم کرکے موت کی سزا دے دیتے ہیں۔ اس نے جواب دیا ہم تو ان کو اپنا سمجھتے ہیں بلکہ مکار ہندو جو ہندوستانی باشندہ ہے وہ ہمارا اصل دشمن ہے ،ہم یہاں حائل شہرمیں پاکستانیوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، آپ لوگوں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے، اس کے آگے میں کچھ نہ کہہ سکا اور ادھر اُدھر کی باتیں کرکے ان سے جدا ہوا کیونکہ ان کے جواب نے مجھے لاجواب کردیا تھا۔

..

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں