ٹی 20 میں ’’دڑا کلچر‘‘ نہیں چلتا،  تبدیلیاں  ’’سکن‘‘ بچانے کیلئے مت کریں، سسٹم بچائیں ،ہمیں ٹیلنٹ تلاش کرنا ہے، ٹیم میں ’’بھرتی‘‘ نہیں

Mar 18, 2025 | 05:10 PM

سید صداقت علی شاہ
 ٹی 20 میں ’’دڑا کلچر‘‘ نہیں چلتا،  تبدیلیاں  ’’سکن‘‘ بچانے کیلئے مت کریں، سسٹم بچائیں ،ہمیں ٹیلنٹ تلاش کرنا ہے، ٹیم میں ’’بھرتی‘‘ نہیں

سہ فریقی سیریز اور چیمپئنز ٹرافی سے ہار کا شروع ہونے والا سلسلہ ختم ہونےکا نام ہی نہیں لے رہا۔
سینئر کھلاڑیوں کو ڈراپ بھی کر دیا، نوجوانوں کو ٹیم میں شامل بھی کر لیا لیکن شکست کا سلسلہ ایسا ہے کہ تھم ہی نہیں رہا۔
نیوزی لینڈ کی سرزمین پر قومی ٹیم پہلے 2 ٹی 20 میچز یکطرفہ طور پر ہار چکی ہے۔ ابھی سیریز کے 3 میچز باقی ہیں۔ پہلے 2 میچز کی پرفارمنس دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ آنے والے میچز کا نتیجہ بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا۔
پہلے بیٹنگ کی بات کر لیتے ہیں۔ جس جس نوجوان نے ٹیپ بال کرکٹ کھیل رکھی ہے، وہ جانتا ہے کہ ’’دڑا بیٹسمین‘‘ کسی کہتے ہیں۔ جنہیں نہیں پتہ، ان کیلئے صرف اتنا کافی ہے کہ ’’دڑا بیٹسمین‘‘ ایسے بلے باز کو کہتے ہیں، جس کی کوئی تکنیک اور ’’کلاس‘‘ نہیں ہوتی۔ اس کا کام صرف کریز پر پہنچتے ہی بلا گھمانا ہوتا ہے۔ کوئی گیند بلے پر آ گئی تو آ گئی۔ جو آگئی تو گراؤنڈ سے باہر اور اگر نہیں آئی تو پھر بلے باز پویلین میں۔ اتوار اور منگل کے میچز دیکھ لیں، سلمان علی آغا کے علاوہ کونسا ایسا بیٹسمین ہے، جس نے گیند کو ’’میرٹ‘‘ پر کھیلا ہو۔ اپنی بیٹنگ تکنیک سے کریز سنبھالی ہو یا پھر اپنی ’’کلاس‘‘ دکھائی ہو۔
پاکستان میں بسنے والے نوجوان جانتے ہیں کہ ملک میں کلب کرکٹ (نیٹ پریکٹس) سیمنٹ کی وکٹ پرہوتی ہے۔ کلب کرکٹ (نیٹ پریکٹس) کیلئے باقاعدہ مٹی اور گاڑھے سے ’’وکٹ‘‘ تیار نہیں کی جاتی۔ جتنے بھی نوجوان ہیں، چاہے وہ بیٹسمین ہیں یا وہ باؤلنگ کرتے ہیں، سیمنٹ پر اپنی صلاحیتیں نکھارتے ہیں۔ پورے ملک میں اکا دکا مثالیں ہی ایسی ہوں گی، جہاں باقاعدہ مٹی سے تیار کردہ وکٹ پر نیٹ پریکٹس کی جاتی ہو۔ اور جب کلب کے میچز ہوتے ہیں تو وہاں نوجوانوں کو جو تیار شدہ وکٹیں ملتی ہیں وہ بھی سیمنٹ کی طرح کی ہوتی ہیں۔ یعنی ان وکٹوں پر باؤنس نہیں ہوتا۔ سیدھی، گھاس اڑی ہوئی اور بیٹنگ کیلئے سازگار وکٹیں نوجوانوں کی منتظر ہوتی ہیں۔ انہی وکٹوں اور گراؤنڈ سے ٹیلنٹ نکالا جاتا ہے۔
اب آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ انہی وکٹوں اور کنڈیشنز میں پی ایس ایل ہوتا ہے۔ باؤلرز کمر اور کندھے کے زور پر اپنی گیندیں کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہمارے آج کل کے باؤلرز گیندیں آگے کرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پچ سے تو کوئی مدد نہیں مل رہی ہوتی۔ ایسی پچز پر باؤنسرز کرانے کیلئے خاصا زور لگانا پڑتا ہے۔ ایسے میں باؤلرز کو جو سہولیات دستیاب ہوتی ہیں، اس میں وکٹیں کم ملتی ہیں اور انجریز زیادہ ہوتی ہیں۔ سمجھانے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ چاہتے ہوئے بھی وہ باؤلرز دستیاب ہیں جو بیٹسمینوں کو ’’دی سلاٹ‘‘ میں گیندیں کرتے ہیں۔ کرکٹ کی لغت میں ’’دی سلاٹ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ گیند بیٹسمین کی مکمل رینج اور اس کے بلے کے بالکل اوپر آتی ہے۔ یارکر سے تھوڑے سے کم فاصلے پر گری ہوئی گیند کو بلے باز بڑی آسانی سے صرف اپنی ’’ٹائمنگ‘‘ اور ’’کلاس‘‘ کے ذریعے باؤنڈری سے باہر پھینک دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے تمام بیٹسمین چاہے وہ سینئر ہوں یا جونیئر ہوں، وہ جب بھی آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ یا جنوبی افریقہ جاتے ہیں تو ناکام ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ’’دی سلاٹ‘‘ میں گیندیں کھیلنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لینتھ اور شارٹ بال زیادہ نہ کھیلنے کی وجہ سے نہ وہ باؤنس سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی صحیح طریقے سے ’’پل اور ہک‘‘ کر پاتے ہیں۔ مخالف ٹیموں کے میڈیم پیس باؤلرز بھی ہمارے بلے بازوں پر بھاری پڑتے ہیں۔ گراؤنڈ کی کنڈیشن، پچ پر موجود گھاس اور باؤنس کے باعث ہمارے بلے باز لینتھ اور شارٹ بال کو بیک فٹ پر ’’بلاک‘‘ بھی کرتے ہیں تو سب تکنیک اور کلاس دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ کیخلاف پہلے 2 ٹی 20 میچز میں اس کا بھرپور مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔
سلمان علی آغا کے علاوہ جو بھی بلے باز کریز پر بیٹنگ کرنے کیلئے آیا۔ اس کو گیند نظر نہیں آیا۔ وہی ’’دڑا‘‘ کلچر دیکھنے کو ملا۔ گیند کہیں تھی، بلا کہیں اور تھا۔ اور اگر کوئی گیند بلے پر آ بھی گئی تو پچ سے ملنے والے باؤنس کے باعث وہ بلے پر پوری نہ آئی اور نتیجہ کیچ آؤٹ کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ یہی گیندیں اگر پاکستان کی پچز پر کھیلنے کو ملتیں تو یہی بلے باز ہوتے جو ان گیندوں کو بڑی آسانی سے گراؤنڈ سے باہر پھینکتے اور ہم گراؤنڈ یا ٹی وی پر دیکھتے ہوئے تالیاں بجا رہے ہوتے۔ یہ سلسلہ بھی اب سے نہیں پتہ نہیں کتنی دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے۔

 پاکستان میں بڑے کوچز آئے اور گئے۔ مقامی کوچز نے بھی خوب محنت کی لیکن ہم آج تک اپنے ٹیلنٹ کو ہی نہیں پہچان سکے۔ تکنیک اور کلاس ہو تو کسی بھی وکٹ پر اچھی پرفارمنس دی جا سکتی ہے۔
اب ذرا اپنی تجربہ کار باؤلنگ کی بات کر لیں۔ کہا جاتا ہے کہ شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف ٹی 20 کرکٹ کے ٹاپ باؤلرز ہیں۔ ذرا کیوی بلے بازوں کو بھی دیکھیں۔ جینئون پیس، باؤنس، سوئنگ کے آگے کیا ہٹنگ تھی۔ اسے کرکٹ کی لغت میں ’’کلین ہٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سلاٹ، لینتھ اور باؤنسر پر بھی چھکے پڑے اور ایسی شارٹس دیکھنے کو ملیں کہ طبیعت خوش ہو گئی۔ یہ ہوتی ہے ’’تکنیک‘‘ اور ’’کلاس‘‘۔ اسے کہتے ہیں مکمل بیٹمسین۔ یہی بیٹسمین اگر پاکستان کی پچز پر بھی کھیلیں گے تو پرفارم کریں گے کیونکہ ان کیلئے ہماری پچز ’’حلوے‘‘ جیسی ہوں گی۔ ثابت یہ ہوا ہے کہ ہمیں ٹیلنٹ تلاش کرنا ہے۔ ٹیم میں ’’بھرتی‘‘ نہیں کرنی۔
سسٹم ٹھیک کریں۔ خدارا سسٹم ٹھیک کریں۔ بہت رسوائی ہو چکی، آگے اور ہوتی نظر آتی ہے۔ اپنی اپنی ’’سکن‘‘ بچانے کیلئے تبدیلیاں نہ کریں، کرکٹ کی بہتری اور سسٹم میں اصلاحات لانے کیلئے تبدیلیاں کریں۔ ملک سے کرکٹ کو ختم نہ کریں۔

نوٹ: ادارے کا بلاگر کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں

مزیدخبریں