شیخ مجیب اگرتلہ سازش کیس میں قید تھے تو اُنکے خصوصی نائب ڈاکٹر کمال الدین بھٹو کے ساتھ رابطے میں تھے،بھارت اس خوفناک سازش کا اہم مرکز تھا

Nov 18, 2024 | 11:29 PM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:88
مشرقی پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے خود مشرقی پاکستان جا کر جناب شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کی۔ بلکہ جب شیخ مجیب اگرتلہ سازش کیس میں قید تھے تواُس وقت اُن کے خصوصی نائب ڈاکٹر کمال الدین بھٹو کے ساتھ رابطہ میں تھے اور شیخ کے دیگر اہم ساتھیوں کا رابطہ بھی بھٹو سے رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو فوجی لیڈر شپ کے بہت قریب تھے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شیخ مجیب الرحمن بھی فوجی لیڈر شپ کی نظر میں تھے اور تحریک پاکستان میں شریک ایک دولت مند خاندان جو کہ فوجی راج کے دوران ہمیشہ حکومت کے اہم عہدوں پر ہوتا ہے شیخ مجیب اس خاندان کے پرانے دوست ہیں۔ پہلے ان کی انشورنس کمپنی کے ملازم تھے بعد میں جب وہ سیاست میں سرگرم ہوئے تو وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ صرف سیاست کرتے تھے اور ان کے تمام اخراجات یہ سیاسی صنعت کار خاندان ہی پورے کرتا تھا بلکہ آج بھی یہ خاندان بنگلہ دیش میں صنعتوں، بنکوں اور انشورنس کمپنیوں پر چھایا ہوا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ بھٹو اور مجیب دونوں ہی مخصوص حکمران طبقوں کے ڈارلنگ تھے تو غلط نہ ہوگا۔
بھٹو چونکہ وفاقی حکومت میں شریک رہے اُن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جبکہ شیخ مجیب الرحمن بھی اس اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے تھے مگر دونوں میں زیادہ قریب کون ہے اس کا فیصلہ اسٹیبشلمنٹ نے خود کرنا تھا جو کہ انہوں نے کیا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ براۂ راست اسٹیبشلمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے صنعت کاروں کے پاکستان کو دولخت کرنے میں کیا مفادات تھے؟اس ساری سازش میں غیر ملکی سازشیں ا ور اندرون ملک ہونے والی سازشوں کے مقاصد کیا تھے۔ اس سے کس کو فائدہ ہوا؟ یہ طے ہے کہ اس سے عالمی سطح پر مسلمانوں کو نقصان ہوا۔ دنیا بھر میں سب سے بڑی اسلامی سلطنت پاکستان کے دولخت ہونے پر حیرت اور پریشانی کا اظہار کیا گیا اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی قیادت کی نااہلی واضح ہو گئی۔ اور یہ بھی دنیا پر واضح ہو گیا کہ بھارت اس خوفناک سازش کا اہم مرکز تھا۔ سازش جہاں بھی بنائی گئی عمل اس پر انڈیا کے لیڈروں نے کیا اور پاکستان کے ساتھ اپنی ازلی دشمنی کو واشگاف کر دیا۔
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحات کا کام شروع کر دیا۔ انہوں نے فوری طور پر بنگلہ دیش کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کے خلاف مقدمہ ختم کیا اور اُنہیں باعزت انداز میں انگلینڈ پہنچا دیا۔ اس کے لئے انہوں نے خود خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد سب سے اہم مسئلہ مغربی پاکستان کا5 ہزار مربع میل علاقہ جو بھارت کے قبضہ میں تھا اور پاکستان کے90 ہزار قیدی…… فوجی، سول ملازمین اور عام شہری جو بھارت میں قید تھے کو رہا کرانا تھا۔ ملک معاشی طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات کئے گئے۔ بھارت سے مذاکرات کے لئے بھارتی جنگی قیدی اور چند سو میل علاقہ واگزار کر دیا گیا۔ بھٹو دنیا کی تاریخ میں پہلے سویلین تھے جو مارشل لاء کے تحت حکومت کر رہے تھے۔ بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور ملک میں دستور سازی کا کام بھی شروع کر دیا گیا۔ جو کافی گہرے اور پیچیدہ مراحل سے گزر کر پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ یہی آئین بیس اکیس ترامیم جو کہ کافی ہمہ گیر ہیں کے ساتھ آج بھی ملک میں نافذ العمل ہے۔ 1973ء کا آئین نافذ ہوتے ہی صدر بھٹو نے مارشل لاء ختم کر دیا۔ عہدۂ صدارت چھوڑ کر وہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ کیونکہ آئین کے تحت صدر کے پاس کوئی اختیارات نہیں بلکہ تمام اختیارات وزیراعظم اور پارلیمنٹ کے پاس تھے۔ بھٹو پارلیمانی آئین کے تحت کام کر رہے تھے انہیں زیادہ اختیارات والا عہدہ پسند تھا چنانچہ وہ پاکستان کے پارلیمانی لیڈر بن گئے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں