یہاں سے چار میل کے فاصلے پر مسلمانوں کا علاقہ تھا اور مسلمانوں کی کشتیاں دن میں کئے مرتبہ اس طرف آکر مچھیروں کی بستی تک چکر لگا جاتی تھیں۔آج جب نارمن کے جہاز یہان لنگر اندازہ وئے تو گشت پر موجود مسلمانوں کی دو کشتیاں تیزی سے اپنے سالار کو اطلاع دینے کے لئے الٹے قدموں بھاگیں۔
یہ اگست کا مہینہ تھا۔ رومیلی حصار کے برجوں پر اربان کی بنائی ہوئی توپیں چڑھائی جا چکی تھیںَ کپتان عباس رومیلی حصار میں ہی موجود تھا۔ اسے جب خبر ملی کہ جنیوا کے جہاز نزدیک پہنچ چکے ہیں تو اس نے ان جہازوں کو مزید آگے آنے سے روکنے کے لئے اپنی بحریہ کو پیش قدمی کا حکم دے دیا۔ ادھر قلعے پر موجود توپوں کے رخ بھی شمال کی جانب کر دیئے گئے تھے۔ اب کپتان عباس کی شریانوں میں ولولہ اور جوش و جذبہ خون بن کر دوڑنے لگا تھا۔ عباس نے اپنی گشت والی کشتیوں کو حکم دیا کہ وہ عیسائی جہازوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھیں۔
جسٹینانی کا استقبال کرنے کے لئے شہنشاہ خود گولڈن ہارن کی بندرگاہ تک آیا تھا۔ جسٹینانی کی کمک دیکھ کر ساحل پر موجود یونانی سپاہیوں کے حوصلے بڑھے اور انہوں نے خوشی کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ لیکن شہنشاہ کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ جسٹینانی آتو گیا تھا لیکن جنگی کمک شہنشاہ کی توقع سے بہت کم تھی۔ پھر بھی شہنشاہ نے پرتپاک انداز میں جنیوی فوج کا استقبال کیا اور ان کے اعزازمیں شاہی محل کے اندر رات کا جشن منعقد کیا۔
شاہی محل میں رات گئے تک شراب کے جام لڑہائے گئے اور شباب و کباب کا اہتمام کیا گیا۔ جسٹینانی کی کم فوج کی دیکھ کر قسطنطنین اس قدر مضطرب ہوا کہ اگلے روز ان تمام ممالک کی طرف دوہرے قاصد دوڑا دیئے جہاں جہاں اس کے سفیر امدادکی درخواست لے کر پہلے سے گئے ہوئے تھے۔ ان میں اسپین کے شمالی صوبے ’’اراگون‘‘ اور ’’قسطلہ‘‘ کے علاوہ مغربی یورپ کے دیگر کئی ایک ممالک تھے۔ جب سے عثمانی بحریہ نے بحراسود کا راستہ بند کیا تھا، شہنشاہ کا تمام تر رابطہ شمالی یورپ کے ساتھ کٹ چکا تھا۔ شمالی یورپ میں بلغاریہ، یوکرائن، چیکو سلواکیہ اور جرمنی کے بعض علاقے شامل تھے۔ شہنشاہ کو رہ رہ کر یہی خیال سستاتا تھا کہ قسطنطنیہ اس کے ہاتھوں سے نکل ہی نہ جائے۔
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 91پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ اپنے آپ کو قسطنطنیہ کا سب سے بد نصیب شہنشاہ تصور کرتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ گیارہ سو سال سے قائم اس کے آباؤ اجدادکی اس عظیم سلطنت کے خاتمے کا وقت آپہنچا ہے۔ وہ قسطنطنیہ کو کسی صورت کھونا نہ چاہتا تھا۔ وہ آخر دم تک قسطنطنیہ کوبچانا چاہتا تھا۔ اسے اپنے آباؤ اجدادکی تاریخ معلوم تھی جنہوں نے گزشتہ سال سو سال میں ایک بار بھی مسلمانوں کو قسطنطنیہ کے نزدیک نہ پھٹکنے دیا تھا۔۔۔شہنشاہ جشن کے ہنگامے میں بہت تھوڑی دیر کے لئے مشغول رہا۔ آج کل اس کا دل کسی بھی چیز میں نہ لگتا تھا۔ قسطنطنین کوصرف ایک ہی فکر تھی اور وہ یہ تھی کہ وہ کسی طرح اپنے آبائی پایہ تخت قسطنطنیہ کو سلطان محمد خان کے حملے سے بچالے۔ وہ عثمانیوں کو اچھی طرح جانتا تھا۔ ابھی چند سال پہلے جب وہ ’’موریا‘‘ کے تکت پر متمکن تھا تو اسے سلطان محمد خان کے والد سلطان مراد خان نے عثمانی شمشیروں کا ذائقہ چکھا کر اپنے خوفناک طریقہ جنگ سے مرعوب کر دیا تھا۔
قسطنطنین جب ’’موریا‘‘ کا حکمران تھا تو اس نے اپنے مقبوضات کے تحفظ کے لئے ’’خاکنائے کورنتھ‘‘ کی قلعہ بندی کی اور ادھر سے اطمینان کر لینے کے بعد ’’تھیس‘‘ کے شہر پر جواس کی سرحد سے قریب سلطان عثمانی کا مقبوضہ تھا، دفعتہً حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ قسطنطنین کو یاد تھا کہ واقعے کی اطلاع پاکے مراد فوراً ’’موریا‘‘ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ راستے میں کورنتھ کا مضبوط قلعہ اس کے سامنے حائل ہوا۔ اورپھر اس وقت قسطنطنی کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب عثمانی توپوں کی گولہ باری کے سامنے کورنتھ کا مضبوط قلعہ خس و خاشاک کا ڈھیر بن گیا۔ عثمانی فوج میں توپوں کے استعمال کا یہ پہلا موقع تھا۔ قسطنطنین کو پورے موریا میں کہیں بھی جائے پناہ نہ دکھائی دی تو قسطنطنین اور اس کے بھائی تھامس نے سلطان مراد خان ثانی کے ساتھ صلح کرلی۔ انہوں نے خراج دینا منظور کیا اور موریا بھی دولت عثمانیہ کی باجگزار ریاستوں میں شامل ہوگیا۔ قسطنطنین کو یہ سب کچھ کیسے بھول سکتا تھا۔ یہ تو اسکی اپنی کہانی تھی۔ اسکی نظروں سے تو اپنے آباؤ اجداد کی کہانی بھی پوشیدہ نہ تھی۔
سلطنت بازنطینی جو کبھی یورپ میں ’’دریائے ڈینوب‘‘ اور ایشیا میں ’’اناطولیہ‘‘ اور ’’شام‘‘ تک پھیلی ہوئی تھی ۔آج صرف قسطنطنیہ شہر تک محدود ہوکے رہ گئی تھی۔ یہ سلطنت بازنطینی کے زوال کی انتہا تھی۔ شہنشاہ سوچنے لگاکہ اس کے اباؤ اجداد نے خود مسلمانوں کو یورپ میں قدم جمانے کا موقع دیا تھا۔ شہنشاہ سوچنے لگا کہ اس کے آباؤ اجداد نے خود مسلمانوں کو یورپ میں قدم جمانے کا موقع دیا تھا۔
شہنشاہ کو معلوم تھا کہ 1338ء میں جب ’’شہنشاہ اینڈرونیکس سوئم‘‘ کے انتقال پر اس کا بیٹا ’’جان پلیولوگس‘‘ کم عمر بچہ رہ گیا تھاتو ’’ملکہ اینا‘‘ گرینڈ چانسلر کنٹا کوزین کونہتے شہزادے جان پلیو لوگس کا نگران اور مدار المہام مقرر کیا گیا۔ شہزادے کا نگران ’’کنٹا کوزین‘‘ جلد ہی اس لالچ میں آگیا کہ قسطنطنیہ کے تخت کو خود ہتھیا لے اور شہزادے کو راستے سے ہٹا دے۔ کنٹا کوزین کی یہی بددیانتی یورپ میں مسلمانوں کی آمد کا باعث ہوئی۔ کیونکہ کنٹا کوزین نے مدار المہام مقرر ہونے کے صرف چند سال بعد یعنی1343ء میں اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت کنٹا کوزین، ’’نیکوٹیکا‘‘ میں تھا۔ ملکہ کو یہ بات سخت ناگوار گزاری اور اس نے اس کی مخالفت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں لڑائی چھڑ گئی اور دونوں نے عثمانی فرمانروا اور عثمان کے بیٹے ’’اور خان‘‘ سے مدد کی درخواست کی۔ اس سے پہلے بھی ترک امیروں نے تخت قسطنطنیہ کے مختلف دعویداروں میں سے کسی نہ کسی فریق کا ساتھ دیا تھا۔(جاری ہے)