عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 91
یہ بحری بیڑے کا علمبردار جہاز تھا۔ اسی طرح علمبردار جہاز میمنہ، میسرہ، قلب اور ہر اول کے لحاظ سے چار تھے۔ سلطان نے جہاز کے عرشے سے بحراسود میں پھیلے اپنے بحری بیڑے پر نگاہ دوڑائی اور سلطان کا سینہ خوشی سے پھول گیا۔ موجوں کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتی ہوئی ہوا نے سلطان کے کانوں میں کوئی ایسی سرگوشی کی کہ وہ مسکرا دیا۔ اور محمود پاشاکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’محمود پاشا! آپ دیکھ رہے ہیں۔ در دانیال کی ہوائیں ہمیں بلانے کے لیے آپہنچی ہیں۔ باسفورس کا نیلا پانی ہمارے جہازوں کا استقبال کرنے کے لیے بے تاب ہے ۔۔۔محمود پاشا! آج ہم آپ کو ایک خاص بات بتاتے ہیں۔‘‘
سب لوگ سلطان کی جانب متوجہ ہوگئے۔ سلطان نے جنوب مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ نگاہ دوڑائی اور اسی جانب منہ کرکے کہا جدھر قسطنطنیہ تھا۔
’’محمود پاشا! ہم بہت چھوٹے سے تھے جب ہم نے قسطنطنیہ کے بارے میں سنا۔ پھر جب ہم قیصر روم شہنشاہ قسطنطنیہ کی سازشوں کے بارے میں سنتے تھے توہمارے دل سے ایک ہی آواز نکلی تھی کہ جب ہم سلطان بنیں گے تو کفر کے اس قدیمی مرکز قسطنطنیہ کو اسلامی سلطنت کا حصہ ضرور بنائیں گے۔‘‘
سلطان نے اتنا کہنے کے بعد عربی زبان کا ایک شعر پڑھا، جس کا مفہوم تھا۔۔۔
’’اے قسطنطنیہ کی اونچی فصیلو! تم دیوانوں کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ ہم تو دیوانے ہیں۔ اپنے محبوب کے عشق میں دیوانے۔‘‘
محمود پاشا نے سلطانی ذوق کی داد دی اور مسکراتے ہوئے کہا’’سلطان معظم! آپک ا جذبہ دیکھ کر یہ پیشنگوئی کرنے کے لی کسی بصیرت کی ضرورت نہیں کہ قسطنطنیہ کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اور بہت جلد یہ شہر قسطنطنیہ نہیں بلکہ ’’اسلام بول‘‘ بن جائے گا۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 90پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان نے محمود پاشا کے منہ سے قسطنطنیہ کا نیا نام سنا اور بہت پسند کیا۔ سلطان نے فیصلہ کیا کہ وہ ’’رومیلی حصار‘‘ اور اناضول حصار‘‘ کی جانب چند جہازوں اورکشتیوں کا ایک دستہ بھیجے تا۔ چنانچہ سلطان نے بوڑھے کپتان عباس کو چار جہازوں کے مختصر دستے کا سالار مقرر کی ااور اسے آبنائے باسفورس میں داخل ہو کر آبنائے کا راستہ’’بحر مارمورا‘‘ کے ساتھ کاٹ دینے کی ہدایت کی۔
چاروں جہازوں کے ساتھ دس دس کشتیاں باندھی گئیں۔ سلطان نے سالار عباس کو ہدایت کی کہ وہ اس کے سامنے اس مبارک جہاد پر ایک ہر اول دستے کی حیثیت سے روانہ ہو۔ چنانچہ عباس کی روانگی کا وقت اگلے روز کے لئے طے کیا گیا۔ اور سلطان اپنی قیام گاہ میں جو ساحل پرہی بنائی گئی تھی۔ لوٹ آیا۔ آج کی رات سلطانی بیڑے کے ملاحوں اور سپاہیوں کے لئے ایک با رونق رات تھی۔ سلطان نے ہر اول دستے کی روانگی کا جشن منانے کی ہدایت کی۔ ترک سپاہیوں نے نئے لباس بدلے، مشعلیں جلائیں، چراغاں کیا۔ جگہ جگہ الاؤ روشن کئے۔ بعض سپاہیوں نے طبل جنگ اور نقارے کی چوٹ پر کرتب دکھائے۔ شمشیر زنی، اکھاڑے کی کشتی اور تاریکی کی تیر اندازی کے مقابلے ہوئے۔ سلطان کی طرف سے بے شمار بلغی دنبے اور بھیڑیں ذبح کی گئیں جن کا سالم گوشت لکڑیاں اکٹھی کرکے بھونا گیا۔ سلطان نے سارے عملے میں انعامات تقسیم کئے اوریوں عثمانی بحریہ کے اولین دستے کی روانگی کا جشن منایا گیا۔
اگلی صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی عباس کے جہازوں نے بحراسود کا ساحل چھوڑ دیا۔ بوڑھا عباس اپنے جہاز کے عرشے پر کھڑا تھا۔ تمام جہازوں پر سلطنت عثمانیہ کا پرچم لہرا رہا تھا۔ سلطان ،امیر البحر، محمود پاشا، احمد کدک پاشا اور آغا حسن ساحل پر کھڑے ’’عباس‘‘ کے جہازوں کوہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کر رہے تھے۔ ساحل کا تمام عملہ، تمام سپاہی اور ملاح الوداع کہنے والوں میں شامل تھے۔ اور یوں بحر اسود کا لاکھوں سال پرانا ساحل جولائی 1452ء کی ایک صبح ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ بوڑھے کی رگوں میں ایک مرتبہ پھر جوان خون دوڑنے لگا۔ اس کے تن بدن میں جوش و خروش بڑھ گیا اور اس نے صرف چودہ دن میں بحراسود عور کرکے اپنے جہازوں کو آبنائے باسفورس کے دہانے پر ڈال دیا۔
مصلح الدین آغا رومیلی حصار کے ایک برج پر کھڑا آبنائے باسفورس میں داخل ہونے والے چھوٹے چھوٹے جہازوں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے یہ جہاز دور سے چھوٹے چھوٹے سیاہ نقطوں کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ یہ جہاز بحر اسودکی جانب سے آبنائے میں داخل ہوئے تھے۔ لہٰذا مصلح الدین کو خدشہ تھا کہ ان جہازوں میں قسطنطنیہ کے لئے شمالی یورپ کی کمک آرہی ہوگی۔ مصلح الدین آغا کے اعصاب تن گئے۔ کیونکہ ان جہازوں کو رومیلی حصار کے پاس ہی سے گزرتا تھا۔ مصلح الدین آغا نے فی الفور اپنے تمام سپاہیوں کو اکٹھا کرکے مستعد رہنے کی ہدایات دیں اور قلعے کے دروازے بند کرا دیئے۔ اس وقت آغا برج پرکھڑا انہی جہازوں کو دیکھ رہا تھا۔ اورپھر اس وقت مصلح الدین آغا کے نعرہ تکبیر نے قلعے کے در و دیوارکو ہلا دیا جب اسکی نظر عثمانی پرچموں پر پڑی۔ا س نے قلعے کے دروازے کھول دینے کا حکم دیا اور اپنے سپاہیوں سے کہا وہ آگے بڑھ کر عثمانی بحریہ کے ہر اول دستے کا استقبال کریں۔
عباس کے جہاز رومیلی حصار کے سامنے آکر لنگر انداز ہوگئے۔ مصلح الدین آغا نے بوڑھے کپتان عباس کا والہانہ استقبال کیا۔ عباس نے آغا کو بتایا کہ سلطان نے آبنائے باسفورس کی ناکہ بندی کا حکم دے دیا ہے ۔ آج سے باسفورس کی گزرگاہ تمام عیسائی جہازوں اور کشتیوں کے لیے بندہو چکی ہے۔ یہ گویا ہماری طرف سے جنگ کا آغاز ہے۔ ہمارے پاس چاربڑے جہازوں اور چالیس کشتیوں پر مشتمل ایک مختصر بیڑا ہے۔ اور اب ہم آبنائے باسفورس کے تنہا محافظ اور نگران ہیں۔
عثمانی بیڑے کے ہر اول دستے نے آبنائے باسفورس کے سب سے بڑے حصے پر جو بحراسود کا دہانہ تھا۔ اپنی حکمرانی قائم کر دی۔ شروع شروع میں بعض عیسائی جہاز اس طرف آنکلے لیکن عباس کے بہادر سپاہیوں نے انہیں آبنائے میں داخل نہ ہونے دیا اور آتش و آہن برساکر واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ پھر ’’گولڈن ہارن‘‘ کی کچھ کشتیاں بے دھیانی میں اس طرف نکل آئیں اور عباس کی شاہین صفت کشتیوں نے انہیں گھیر کر گرفتار کر لیا۔ اب عثمانی جہاز آبنائے میں دن رات دندناتے پھرتے تھے۔ آبنائے جو دو سمندروں کو ملانے والی آبی گزر گاہ تھی اب جنوب کی طرف سے آدھی سے زیادہ مسلمانوں کے قبضے میں تھی۔ البتہ شمال کی جانب سے آبنائے میں داخل ہونے کے لئے در دانیال کا راستہ ابھی کھلا تھااور در دانیال کے راستے سے ’’بحیرہ روم‘‘ کے عیسائی جہاز آسانی کے ساتھ قسطنطنیہ تک اپنی امداد پہنچا رہے تھے۔ وینس، اسپین، جنیوا اور روم کی جانب سے آنے والی کمک ’’دردانیال‘‘ کے راستے سے قسطنطنیہ تک پہنچ سکتی تھی۔
***
آبنائے باسفورس پر قبضے کی خبر شہنشاہ تک پہنچی تو اس کے چھکے چھوٹ گئے۔ اس نے فی الفور اپنے وزیر خاص کو بلایا اور کسی قدر برہم لہجے میں پوچھا۔
’’وزیر خاص! عثمانی بحریہ کا ہر اول دستہ ہماری آبنائے میں دندناتا پھر رہا ہے۔ اور جان جسٹینانی ابھی تک نہیں پہنچا۔۔۔کیا جنیوی بحری بیڑے کے ملاحوں کے بازوؤں میں چپو چلانے کی بھی ہمت نہیں رہی؟ یہ لوگ آبنائے باسفورس کی حفاظت کے لئے آنے والے تھے۔ لیکن آبنائے کا ایک حصہ تو اب تک مسلمانوں کے قبضے میں جا بھی چکا ہے ۔۔۔اگر گولڈن ہارن اور قسطنطنیہ کے ساحل پر ہمارے اپنے جہاز متعین نہ ہوتے تو اب تک عثمانی بحریہ کا ہر اول ہماری فصیلوں کو چھو چکا ہوتا۔ وزیر خاص! ہم بہت پریشان ہیں۔ ہمیں بتاؤ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
شہنشاہ کا لہجہ دیکھ کر وزیر خاص سہم گیا اور کمر تک جھک کر ادب سے بولا ’’ہمارے قاصد یہ خبر لائے ہیں کہ جان جسٹینانی کے بحری جہاز ایک دو دن میں در دانیال کی جانب سے آبنائے میں داخل ہو جائیں گے۔ شہنشاہ معظم! آپ فکر مند نہ ہوں۔ جان جسٹینانی کی بحری طاقت ہمارے ساتھ ملتے ہی ہم عثمانی جہازوں کو آبنائے کے علاقے سے نکال باہر کریں گے۔‘‘
لیکن شہنشاہ کی تسلی نہ ہوئی۔ شہنشاہ نے سپہ سالار نوٹاراس کو پیغام بھیجا کہ وہ شہر کے تمام دروازوں اور فصیلوں کی ذمہ داری اب براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لے۔ جوں جوں دن گزرتے جا رہے تھے۔ قسطنطنین کا خوف بڑھتا جا رہا تھا۔ اسے ایک دم اپنا خواب یاد آیا اور اسے سسٹر میری کی بتائی ہوئی تعبیر بھی یاد آئی۔ وہ کانفرنس کے روز سرخ آنکھوں والے دیو شاگال کو پہچان چکا تھا۔ لیکن شاگال نے تو بھری مجلس میں کام ہی ایسا دکھایا تھا کہ شہنشاہ اب اسے کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ یہ گویا ایک طرح سے شاگال نے شہنشاہ کو اپنے دامن میں پناہ دی تھی۔ بالفاظ دیگر شہنشاہ کا خواب پورا ہوا تھا۔ سسٹر میری نے کہا تھا کہ وہ سرخ آنکھوں والے دیو کو دیکھتے ہی قتل کر دے۔ لیکن شہنشاہ ایسا نہ کر سکا تھا۔
قسطنطنین آج کل بہت مضطرب تھا۔ اس کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی جنگی مصروفیت میں ڈوبا رہتا۔ اورجب اکیلا ہوتا تو شراب پینے لگتا۔
جان جسٹیانی کی بحرییہ جو کئی جہازوں اور سینکڑوں کشتیوں پر مشتمل تھی ایک کثیر فوج لے کر آبنائے کے شمالی دہانے میں داخل ہوئی۔ بحریہ کے سب سے اگلے جہاز پر صیلبی پرچم نصب تھا۔ جہازوں میں سوار سپاہی اپنے اپنے جہازوں کے عرشے پر آگئے اور دور سے قسطنطنیہ کا نظارہ کرنے لگے۔ ان سے تین میل کی مسافت پر قسطنطنیہ تھا۔ اور قسطنطنیہ کے ایک پہلو میں گولڈن ہارن تھی۔ آبنائے باسفورس کا دوسرا یعنی جنوبی سرا مسلمانوں کے قبضے میں تھا جو قسطنطنیہ سے پانچ میل دور تھا۔ البتہ عثمانی کشتیاں کبھی کبھی گشت کرتی ہوئی شہر کے بالکل نزدیک آنکلتیں۔ لیکن عثمانی بحریہ کو کچھ دیر تنگ کرنے کے بعد واپس بھاگ جاتیں۔ جان جسٹینانی کے جہاز فصیل شہر کے ساتھ گھومتے ہوئے گولڈن ہارن کی جانب نکل آئے۔ گولڈن ہارن کی آہنی زنجیر ڈھیلی کر دی گئی اور بہت سے اہم جہاز اور کشتیاں گولڈن ہارن کے اندر داخل ہو کر شہر کی گودیوں سے آلگیں۔ جسٹینانی کے باقی جہاز گولڈن ہارن سے باہر ہی آبنائے کے ساحل پر لنگر انداز ہوگئے۔ جس جگہ کو جسٹینانی کے باقی جہازوں نے لنگر انداز ہونے کے لئے منتخب کیا تھا۔ یہ دراصل مچھیروں کی چھوٹی چھوٹی گودیاں تھیں جہاں دن بھر مچھلیوں کا شکار کرنے کے بعد باسفورس کے مچھیرے اپنی کشتیاں کھڑی کرتے۔ مچھیروں کے بچے ساحل پر ہی کھیل رہے تھے۔ جنگی جہازوں کو دیکھ کر سہم گئے اور بستی کی جانب بھاگ کھڑے ہوئے۔
’’نارمن‘‘ جو عیسائی بحریہ کے اس حصے کا کپتان تھا، اپنے جہاز کے عرشے سے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی بستی کوبغور دیکھ رہا تھا۔ نارمن جنیوا کا ایک ماہر بحری سپہ سالار تھا۔ یہ درحقیقت ایک بحری قزاق تھا جسے جسٹینانی نے بھاری رشوت دے کر اپنے لشکر میں شامل کیا۔ اس کی زندگی کے چالیس سال سمندر کے پانیوں میں گزرے تھے اور اس کے چہرے پر موجود زخموں کے نشان اس باتکے گواہ تھے کہ نارمن کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔ یہ جب بحری قزاق تھا تو اس کی سفاکی دور دور تک مشہور تھی۔ نارمن جس قدر اپنی بہادری اور شمشیر بازی میں مشہور تھا، اس سے کہیں زیادہ اپنی وحشت اور درندگی کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ نارمن کی سب سے بری عادت پرتھی کہ وہ بہت زیادہ شراب پیتا اور آئے روز نئی سے نئی لڑکی اپنے بستر پر طلب کرتا۔ نارمن نے مچھیروں کی بستی کو دیکھا توجہازوں کو لنگر انداز کرکے ساحل پر خیمے لگانے کا حکم جاری کر دیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)