میں ایک بات آپ کو پوری ایمان داری سے کہہ رہا ہوں کہ اپنی زندگی میں صرف ایک ہی کام کریں۔ اس سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں، اور وہ یہ کہ اپنی عقل و دانش پر ایمان لانا چھوڑ دیں۔ جس دن آپ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ حضرت ابو بکرؓ مجھ سے زیادہ عقل مند ہیں، اس دن زندگی کے ننانوے نہیں، ایک سو ایک فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔
معاملہ یہ ہے کہ ہم محبت تو بہت کرتے ہیں، حضرت علیؓ سے، ان کا نام لے کر روتے تو بہت ہیں، مگر اُن کی بات ماننی پڑ جائے تو زندگی مشکل میں پڑ جاتی ہے۔
حضرت ابو بکرصدیقؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے بڑی سادہ سی بات کی۔ کہا کہ مسلمان کی زندگی دو جملوں میں گزرنی چاہیے، مل جائے تو الحمدللہ، نہ ملے تو انا للہ۔
اب اگرحضرت ابو بکر صدیق ؓ حق پر ہیں، اور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ واقعی ہم سے ہر لحاط سے بہتر انسان ہیں، تو حضرت ابو بکرؓ کی بات بھی واقعی ہم سے بہتر ہو گی۔ اس کے بعد مزید کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
اللہ نے کہا کہ میں بندے کی طرف ویسے ہی پلٹتا ہوں، جیسے مجھ سے مانگنے والا آس اور امید رکھتا ہے۔ وہ ایک بالشت آتا ہے، میں ایک ہاتھ آتا ہوں، وہ چل کے آتا ہے، میں بھاگ کے آتا ہوں، غرض یہ کہ وہ مجھ سے جیسا گمان رکھتا ہے، میں اُس سے ویسا ہی پیش آؤں گا۔
عین ممکن ہے کہ میری زندگی میری امیدوں کے مطابق نہ ہو لیکن اگر اللہ سے میرا گمان اچھا رہے تو انشاء اللہ تعالیٰ اللہ ویسا ہی کرے گا، جیسا میرا گمان ہے۔
بس یہ یاد رکھنا کہ دُعا مانگنا میرا حق ہے لیکن دعا کو ضد نہیں بنا لینا۔ جب آپ اپنی دعا کو مانگ کر اللہ کے بھروسے پر اللہ کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لیں گے تو پھر ہی یہ بات ممکن ہو سکتی ہے کہ اللہ بھی آپ کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں مجالس میں اپنی علمیت جتانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کے بارے میں یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہاں سے باہر جا کر بھول جائیں گے۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ بھولیں گے کہ نہیں، میں کون ہوتا ہوں یہ کہنے والا؟ اس لیے ایسے تکبرانہ معاملات سے گریز کرنا چاہیے۔ کون کتنا یاد رکھتا ہے یا کیا بھلا دیتا ہے، یہ میرا یا آپ کا ذمہ نہیں۔ ہم لوگ اس چڑیا کی طرح ہیں جس کا کام فقط اپنی چونچ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ پر پانی ڈالنا ہے۔ اس چڑیا کو پتا تھا کہ اس کی چونچ سے گرنے والے پانی سے آگ بجھے گی نہیں لیکن اُس نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ جب قیامت کے دن اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ تُو اس وقت آگ کو دیکھ کر کیا کر رہی تھی؟ تو میں یہ کہوں گی کہ یا اللہ! میں اس وقت اپنی چونچ سے آگ پر پانی ڈال رہی تھی۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔