گماں سے آنکھ ملاؤ تو گیان ملتا ہے
زمیں پہ ہوتے ہوئے آسمان ملتا ہے
بہت ہے زعم جنہیں اپنی شعر گوئی پر
سنائیں شعر تو سطحی بیان ملتا ہے
یہ شہر پھیل گیا ہے کہ ہوگیا تقسیم
جہاں بھی جائیں نیا اک جہان ملتا ہے
کوئی بھی رزق کی تقسیم کا نظام نہیں
کسان تک بھی یہاں بد گمان ملتا ہے
جو ایک بار مرے در سے ہو گیا بے در
پھر اس کو گھر نہیں ملتا، مکان ملتا ہے
خوشی کی ایک لہر تن میں پھر اتر جائے
پرائے دیس میں جب ہم زبان ملتا ہے
اتر گیا ہے رگ و پے میں یہ عذابِ سموگ
ہر ایک شخص یہاں بے امان ملتا ہے
شجر ہرے ہیں ثمر بار ہونے والے ہیں
بہار میں بھی نیا اک جہان ملتا ہے
کچھ اس لئے بھی ہوں شکوہ کناں بہت، ثقلین
کہ بونا شخص بھی بن کر مہان ملتا ہے
کلام : ثقلین جعفری