سیر گوشت لینے والا امیر آدمی سمجھا جاتا ، کھانے میں دیسی گھی استعمال ہوتا تھا، ایک آنے کی بھی قدر تھی،سستا زمانہ، مخلص لوگ اور دکھ درد سانجھے

Jan 19, 2025 | 11:00 PM

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:54
 پہلوانوں کے شہر میں؛
 مجھے یاد ہے بھائی جان بوبی کی پوسٹنگ ان دنوں بطور ٹیکسیشن افسر سیالکوٹ میونسپل کمیٹی تھی۔ وہ ہفتہ کی شام ہمارے پاس گوجرانوالہ چلے آ تے اور اگلے روز یعنی اتوار کو میں سائیکل پر ان کے لیے اخبار(امروز، مشرق، نوائے وقت اور پاکستان ٹائیمز۔) لینے بازار جایا کرتا تھایو ں مجھے بھی بچپن سے ہی اخبار کے مطالعہ کی لت پڑ گئی تھی۔ 4 آنے کا اخبار آتا تھااور2روپے سیر چھوٹا گوشت تھا۔اس دور میں پاؤ ڈیڑھ پاؤ سے زیادہ کم لوگ ہی گوشت خریدتے تھے۔ سیر گوشت لینے والا امیر آدمی سمجھا جاتا تھا۔ کھانے میں دیسی گھی استعمال ہوتا تھا۔ ایک آنے کی بھی بہت قدر تھی۔سستا زمانہ، مخلص لوگ اور دکھ درد سانجھے۔ 
 میرے نانا کی حویلی کے ساتھ ہی ستارہ فیکٹری تھی۔یہ اپنے دور میں دروازوں، کھڑ کیوں کے قبضے،چٹخنیاں، پیچ، ہارڈ وئیر وغیرہ بنانے کا مشہور برانڈ تھا۔اب یہ فیکٹری کہیں اور منتقل ہو چکی ہے۔    
 اس زمانے کا ایک رواج کئی کئی روز دن رات سائیکل چلانا بھی تھا۔سرکس میلے تو اتنے نہیں ہوتے تھے البتہ سائیکل کا سرکس ہر چند ماہ کے بعد کسی نہ کسی کھلے میدان میں ضرور لگتا تھا۔ منادی ہوتی، اعلان ہوتا کہ فلاں دن سے فلاں آدمی فلاں مقام پر 7 دن لگاتار دن رات سائیکل چلائے گا۔ ایک دائرے میں یہ کھیل شروع ہو تا اور سائیکل چلانے والا دائرے میں سائیکل چلاتا مختلف کرتب بھی دیکھتا۔ کبھی وہ ہاتھ چھوڑ کر سائیکل چلاتا، کبھی وہ منہ پیچھے کی طرف گھما کر، کبھی ون ویلنگ کرنے لگتا۔ سائیکل چلاتے ہی وہ پانی پیتا اور کھانا وغیرہ بھی کھاتا۔یقیناً  رفع حاجت کے وقت وہ کچھ دیر کے لئے سائیکل سے ضرور اترتا ہوگا۔یہ سب اس کی مہارت تھی۔اکثر سائیکل کی سیٹ بھی اتار دی جاتی تھی تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ ایسے سائیکل چلانا کوئی آسان نہیں بڑامحنت طلب ہے۔ صبح سے شام تک لوگوں کی اچھی خاصی تعداد اس کرتب سے محظوظ ہوتی تھی۔ مغرب کے بعد لوگ چلے جاتے۔ مجھے نہیں معلوم یہ سائیکل سوار ساری رات جب کوئی دیکھنے والا بھی نہ ہوتا تھا سائیکل چلاتا تھا یا نہیں۔ہاں فجر کے بعد جب لوگ یہاں آتے تو سائیکل چل ہی رہی ہوتی تھی۔ تماشا ئی سائیکل سوار کو اپنی حیثیت کے مطابق رقم بھی بطور انعام دیتے جو اس کے ساتھ آئے لوگ وصول کرتے۔ اس کرتب کے آخری دن کثیر تعداد میں لوگ آتے اور سائیکل سوار کو خوب انعام سے نوازاتے تھے۔ پیسے کمانے کا یہ محنت طلب اور مشقت بھرا طریقہ تھا۔ میں نے ایسا پہلا کرتب شورکوٹ سٹیشن کے قریب کھلے میدان میں دیکھا تھا اور گوجرانوالہ تو یہ کرتب تواتر کے ساتھ کسی نہ کسی کھلے میدان میں ہوتے ہی رہتے تھے۔
پہلوان، تانگے اور جلوس؛
 گوجرانوالہ کو پہلوانوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ پہلوانی اس شہر کی پہچان رہی ہے اور برصغیر کے نامور پہلوانوں کا تعلق بھی اس شہر سے تھا۔ جن میں رستم ہند رحیم بخش سلطانی والا، یونس پہلوان ستارہ پاکستان، گونگا پہلوان، اچھا پہلوان اور گوگا پہلوان وغیرہ شامل تھے۔ رحیم بخش جیسا پہلوان کم کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنا آخری دنگل بہتر(72) سال کی عمر میں ایک28 سالہ کنیڈین پہلوان سے لڑا اور جیتا۔پہلوانی کے یہ مقابلے دنگل کہلاتے ہیں۔ یہ دنگل پہلوانوں کے چھوٹے جوڑوں (مقابلوں)سے شروع ہو کر بڑے مقابلہ پر ختم ہو تے تھے۔ مقابلہ کی جگہ ”اکھاڑہ“ کہلاتی تھی۔ بڑے بڑے پہلوانوں کے اپنے اکھاڑے تھے جن میں ان کے شاگرد ”زور“(پریکٹس،مشق) کرتے۔ دنگل میں پہلوان مقابلہ شروع ہونے سے قبل ایک دوسرے پر اکھاڑے کی مٹی لگا کر جسم پر لگے تیل کی چکناہٹ کم کرتے تاکہ مقابلے کے دوران ہاتھ کی پکڑ بہتر ہو۔ یہ مقابلے انسانی طاقت، قوت اور داؤ پیچ کی مہارت کا امتحان ہوتے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں