خیر ..... اب جو مسئلہ درپیش تھا وہ مجھے بادی النظر میں بہت حوصلہ افزا معلوم ہوتا تھا ..... فیصلے کا لمحہ قریب تھا ..... میری چھٹی حس خطرناک صورت حال سے خبردار کر رہی تھی ..... سخت خطرہ ..... !
ایک بار گھاس کا پردہ چاک ہوا ..... اب مجھے سخت خطرہ محسوس ہو رہا تھا ..... ! میری انگشت شہادت نے ٹریگر کو اپنے دائرے میں لے لیا ..... نظر رائفل کی نالی پر پھسلتی اس نقطے پر جم گئی جہاں سے وہ موذی باہرآنے والا تھا ..... دل کی دھڑکن اس وقت غالباً کسی قدر ضرور ہوئی ہوگی ..... اگرچہ سالہا سال شکار میں گزارنے اور سینکڑوں جانور شکار کرنے کے بعد وہ جوش اور اضطرار کی کیفیت تو پیدا نہیں ہوتی جو بعض نو آموزیا مبتدیوں کا خاصہ ہے لیکن کبھی کبھی بہت زیادہ فشار کے موقعے پر طبیعت مضطرب ..... ضرور ہوتی ہے اور شاید یہ تقاضائے بشریت ہے .....
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تاہم ..... ایک تجربہ کار شکاری کے لیے ..... بلکہ ہر شخص کے لیے جو کسی قسم کے شکار کا ارادہ کر لے طبیعت کو پوری طرح قابو رکھنا..... اعصاب کو سکون کی حالت میں رکھنا ..... جوش و خروش سے سخت احتراز کرنا اور جلد بازی کو قطعاً ترک کر دینا ضروری ہے ..... یہ تمام متروکات لازمی جنکا اور تذکرہ کیا گیا شکار کے لیے اور اکثر حالات میں خود شکاری کے لیے خطرناک ہیں ..... بعض حالات میں مہلک بھی ہو سکتے ہیں .....
بعض کمزور طبیعت لوگ افواہیں اڑنے اور مبالغہ آرائی کرنے بھی کمال رکھتے ہیں ..... خصوصاً ایسے لوگ جو کسی شخص کی بعض حرکت سے یا خوبی سے مرعوب ہو کر اس کے بارے میں طرح طرح کی خبریں پھیلاتے ہیں ..... مثلاً ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ نواب بھوپال حمیداللہ خاں بڑے قادر انداز تھے ..... اس زمانے میں چوانی بہت چھوٹا سا چاندی کا سکہ ہوتا تھا ..... کہنے لگے چوانی ہو امیں اچھال کر اس کو تھرٹی اسپرنگفیلڈ سے اڑا دیتے ہیں .....
حمیدا للہ کی قادر اندازی کیا ..... نشانہ ہی نہایت مشکوک تھا ..... شاذو ناذر بندوق چلانے والے شخص کا نشانہ ہی کیا ہوسکتا ہے..... کامیاب نشانے کے لیے مسلسل مشق اور فائرنگ لازمی ہے ..... مشق کے بغیر کوئی شخص کسی کام میں مہارت نہیں حاصل کر سکتا.....
ایک زمانے میں مہاراجہ گوالیار ..... جبکہ ہندوستان میں ریاستیں ہوا کرتی تھیں اور یہ ریاستیں نیم خود مختار بھی تھیں ..... شکار کے شائق گئے ..... مچان پر بیٹھ کر شکار کرتے تھے ..... اور کئی بار کی ناکامی کے بعدان کے مصاحبین نے یہ کیا کہ جس درخت پر راجہ گوالیار بیٹھتا..... اس کے نزدیک درخت پر ایک مچان پر ایک نہایت قادر انداز شخص متعین کیا جاتا ..... وہ شخص ایسے زاویے سے بیٹھتا کہ راجہ اس کو نظر آتا رہے .....
شیر آتا تو راجہ صاحب کے فائر کے ساتھ یہ قادر انداز بھی فائر کرتا ..... اتنے قریب کہ ایک ہی فائر معلوم ہوتا ..... راجہ صاحب کی گولی سے تو شیر کیا مرتا ہوگا..... قادر انداز کی گولی لگتی ہوگی ..... لیکن نام راجہ کا ہوتا تھا ..... اور ان کے مصاحبین کو انعامات ملتے رہے ہوں گے.....!
بہت سے رؤسا اسی قسم کے شکاری ہو گزرے ہیں ..... ! میں جانتا ہوں ایسے شکاری شاذ ہی ہوتے ہیں جو میری طرح پاپیادہ جنگل جنگل گھوم کر شیر ..... اوروہ بھی آدم خور شیر ..... تلاش کر کے بالمقابل کھڑے ہو کر اس موذی کو ہلاک کرتے ہوں ..... !
لوگوں کوجم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن کے نام یاد ہوں گے ..... قمر نقوی بدستور گمنام ہے ،اس لیے کہ یہ دونوں اسی ایک کام کے ہوگئے ..... دونوں کے مستقر ان ہی علاقوں میں تھے جہاں انھوں نے وہ کارنامے انجام دیئے جن کے قصے لندن سے شائع ہوئے اور ساری دنیا میں پڑھے گئے ..... میں کسی ایک علاقے میں محدود نہیں رہا ..... میرا قیام کہیں ..... شکار کبھی بھوپال ..... کبھی اٹاری ‘ناگپور..... بلھارشاہ ..... گلبرگہ ..... آصف آباد ..... نلگنڈہ ..... ربوا ..... اڑیسہ ..... دیتا ..... نیپال ..... ملائشیا ..... برما ..... ایران ..... یوگنڈا ..... کانگو ..... اور بالا خرا مریکہ۔ ایسی حالت میں مقامی لوگ مجھ سے اس قدر آشنا نہیں ہوئے کہ میرا نام اور پتہ ہمیشہ یاد رکھتے ..... میں آج بھوپال میں ہوں ..... تو کل دکن میں ..... اور وہ بھی اس طرح کی رہائش لاہور ..... شکار حیدر آباد دکن .....!
لیکن میری گمنامی میرے لیے بڑی نعمت ہے ..... مجھے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ سبحانہ نے دنیا کی ساری نعمتوں سے سرفرازفرمایا ہے ..... الحمدللہ ..... !
گھاس کا کنارا تھا .....
وہ موذی آدم خور اب سامنے آنے ہی کو تھا .....اب تو میں نے رخسار کندھے پر لگا کر ایک آنکھ بھی موندلی تھی ..... ونڈرا کو پھر بھی تاکید تھی کہ پشت کی طرف دیکھے رہے ..... مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ بیوقوف میری ہی طرف نظریں ادھ جمائے ہوئے بندوق کی نالی کئے تھا .....میری انگشت شہادت ٹریگر پر تھی ..... ایک بار ہی شیر کی زبردست بھبکی سے چونک کرہٹا ..... انگشت شہادت ٹریگر پر تو تھی ، غالباً عجلت کے عالم میں ٹریگر ہی دب گیا اور فائر ہوگیا ..... جنگل میں تو جیسے قیامت آگئی ..... پرندے جابجا سے پھڑ پھڑا کر اڑے .....
شیر کی آواز عقب سے آئی تھی .....
میں بمشکل ہی فائر دھچکے سے سنبھل سکا..... دہشت ہی ایسی تھی ..... اتنے قریب کی بھبکی ..... گھوم کر دیکھا تو ونڈرا مجھ سے صرف پانچ گز پر شیر کے جبڑوں میں تھا ..... لیکن چاروں ہاتھ پیر چلا رہا تھا ..... اورحلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی .....
میں دوسرا کارتوس چیمبر میں لایا ..... لیکن رائفل کے دھماکے نے شیر کو بدحواس کر ہی دیا تھا ..... وہ اپنے شکار کو چھوڑکر ساتھ ہی جھاڑیوں میں گھس گیا ..... مجھے نظر آرہا تھا ..... یقیناً وہ بھاگ لیا .....
ونڈرا زمین پر پڑا تھا ..... اس کو شیر نے ران سے پکڑا تھا جہاں دانتوں کے گہرے زخم تھے ..... پنجوں سے شانوں اور پشت پر بھی گہرے زخم آئے تھے ..... لیکن کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی تھی ..... یہ سب واقعہ جتنے عرصے میں بیان کیا گیا اس سے کہیں زیادہ سرعت سے وقوع پذیر ہوا ..... شیر کے حملے سے فائر ہوجانے اور ونڈرا کے نظر آنے اور شیر کے جھاڑیوں میں گھسنے تک شاید دو چار سیکنڈ کا وقت ہی لگا ہوگا..... !(جاری ہے)