شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 36

شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 36
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 36

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شیر کے مقابلے میں آنے والا گویا میدان جنگ میں قدم رکھتا ہے ..... جس شخص نے میدان جنگ میں قدم رکھا اور دشمن کو للکارا اس کو اپنے پس وپیش سے غفلت نہیں کرنا چاہیے ..... آدم خور شیر ہمیشہ غیر متوقع حرکات ہی کرتا ہے ..... !
وہ لمحات جو اس جانور کے خروج کے انتظار میں گزرے ..... اضطراب‘ جوش اور توقع کے لمحات تھے وہم اور یقین کے لمحات تھے..... کبھی گمان ہوتا شیر نہیں کوئی اور جانور ہے ..... کبھی خیال ہوتا شیر ہوگا ..... دل سے جو دعا نکلتی تھی وہ یہ کہ الٰہی یہ شیر ہو ..... اور سامنے آجائے ..... 
انسان ..... اللہ کا بندہ ..... کس قدر خود غرض اور کتنا حریص ہوتا ہے ..... طرح طرح کی خواہشات کرتا ہے اور ہر خواہش کے لیے اللہ تعالیٰ سبحانہ سے دعا مانگتا ہے ..... اور جب دعا مانگتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول ہی کر لے ..... اور فوری قبول کرے ..... یہ نہیں سوچتا کہ بندہ بے اختیار اور مجبور اور اللہ تعالیٰ شہنشاہ کون و مکاں ..... مطلق العنان ..... بے نیاز ..... اور مالک ہے..... اس کی مرضی ہے ..... قبول کرے یا نہ کرے .....

شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فقیر کسی صاحب سطوت و ثروت سے سوال کرتا ہے ..... ہاتھ پھیلانا ہے تو یہ دینے والے کی مرضی منحصر ہے چاہے تو دے ..... چاہے نہ دے ..... فقیر کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا ..... اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہی نکتہ بیان فرمایا ہے ..... قرآن کریم کی آیت 
یا ایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ 
’’ابے بنی نوع انسان ..... تم سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فقیر ہو .....‘‘ اللہ کے حضور میں بھیک مانگنے والے کو اس بیان میں کیا شک ہے.....! انسان سب اللہ سے مانگتے ہی رہتے ہیں ..... اور وہ رب کریم عطا کرتا رہتا ہے ..... دعائیں قبول فرماتا رہتا ہے .....!
میں اس شیر کے سامنے آنے کی دعا کر رہا تھا ..... !
فاصلہ ..... روشنی ..... ہوا زمین کی ساخت .....میری کیفیت ..... سب کامیابی کے لیے مناسب اورمعقول تھے ..... میں نے بندوق کی نالی ایک شاخ پر ٹکا دی تھی اور ایسی حالت میں تھا کہ نشانہ خطانہیں ہونا چاہیے تھا ..... ایسے موقعوں پر بعض لوگوں کے بڑی وحشت اور بہت جوش ہوتا ہے ..... دل کی ڈھرکن بڑھ جاتی ہے۔ سانس کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے ..... اور بعض لوگوں کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ..... اگر ایسی حالت ہو تو نشانہ خطا ہونا عین یقینی ہے .....
میں بھی ابتدائے عمر میں اس مرحلے سے گزرا ہوں ..... لیکن بتدریج تجربے اور افراط شکار نتیجے میں مجھے اس کیفیت سے نجات جلدی ہی مل گئی ..... غالباً سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں میرے اعصاب قعطاً آہنی ہوگئے ..... نہ جوش ..... نہ خوف ..... ! 
اور اسی سکون کی کیفیت کا نتیجہ تھا کہ میرا نشانہ اکثر خطا نہیں ہوتا تھا..... اب بھی خطا نہیں ہوتا ..... الحمد اللہ ..... لیکن اتفاق ہے..... خطا ہو بھی سکتا ہے ..... !
اگست 1995ء کا واقعہ ہے کہ میں سپلیا (SAPULPA)کی فائرنگ رینج پر اپنی تین رائفلیں لے کر مشق کے لیے گیا..... میرے ساتھ جو رائفلیں تھیں .....تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم..... تھرٹی اسپر نگلینڈ ..... تھرٹی تھرٹی ..... 
تینوں رائفلوں سے بیس بیس فائر کرتا ہوں ..... گویا ایک ڈبہ ہر رائفل کے کارتوسوں کا چلاتا ہوں ..... میں نے پہلے تھرٹی تھرٹی سے فائرنگ شروع کی ..... دیڑھ سو گز کی رینج پر موٹے کاغذ کا وہ ٹارگٹ لگا ہوا تھا جس پر مختلف فاصلوں کے دائرے بنے ہیں ..... درمیان میں دو انچ دور کا سیاہ رنگ کا حلقہ ہوتا ہے جس کا اصطلاح میں ’’ہدف ‘‘ یا انگزیزی میں (BULL,S EYE) کہتے ہیں .....
میں نے ذرا ٹھہر کر پانچ فائر کیے ..... رائفل رکھ کر دور بین سے دیکھا ..... پانچوں گولیاں ’’ہدف‘‘ پر لگی تھیں ..... پانچ فائر کیے ..... گولیاں پھر ہدف پر لگیں ..... میرے قریب جو دوسرے لوگ تھے اب وہ متوجہ ہوگئے ..... اس لیے کہ تھرٹی تھرٹی پر اسکوپ نہیں ہے ..... میں دور بین سے نشانہ دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک شخص پاس آیا ..... 
’’تمہیں اندازہ ہے کہ تمہاری ساری گولیاں کہاں لگیں ..... ؟‘‘
میں نے اسے دیکھا اور مسکرا دیا ..... ’’ہاں معلوم ہے ..... ‘‘
’’ ..... یو آرسم تھنگ ..... !‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا ..... پھر رائفل اٹھائی ..... پانچ فائر اور کیے اور گولی سیاہ ہدف کے باہر لگی ..... چار سیاہ ہدف پر ..... پھر پانچ فائر اور اسی طرح کیے ..... سب سیاہی پر ..... اب میں ٹارگٹ والا کاغذ بدل کر ایک نیا کاغذ لگایا اور تھرٹی اسپرنگفلیڈاٹھائی ..... اس پر ٹیلسیکوپ لگی ہوئی ہے ..... اور دس پاور کی (VARIABLE) اسکوپ ہے ..... تین جوان العمر بندوقچی اپنی میزیں چھوڑ کر میرے پیچھے آکھڑے ہوئے ..... مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی لیکن میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی فائرنگ رینج کے بوڑھے مالک نے ان کو ٹوکا ..... اور وہ کسی قدر دور چلے گئے .....
میں نے تھرٹی اسپرنگلینڈ سے بیس فائر کئے سارے (Bulls Eye) پر لگے ..... اب تین سو پچھتر ہالینڈ اینڈ ہالینڈ میگنم کی باری تھی ..... اس پر بھی اسکوپ نہیں ہے ..... اتنے بڑے کیلبر کی رائفل پر کوئی اسکوپ استعمال نہیں کرتا..... !
پانچ پہلے فائر ’’ہدف‘‘ پر ..... اس طرح کی پانچوں گولیاں ایک ہی سوراخ میں سے گزریں ..... باقی گولیاں ساری ’’ہدف‘‘ پر لگیں.....
بڑی اور زیادہ وزن کی رائفل میں گرفت زیادہ متوازن (STABLE) ہوتی ہے ..... اور فائر آسان ..... لیکن ..... میں قدر انداز نہیں ہوں ..... مجھے اس کا قطعاً دعویٰ نہیں کہ ساری گولیاں صحیح نشانے پر جائیں گے ..... کوئی نشانہ خطا بھی ہو سکتا ہے ..... لیکن اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ میں نے کئی بار حملہ آور شیر یا چیتے یا ریچھ کو موت سے ہم کنار کر دیا ..... اس کتاب میں بھگت گڑھ کے چیتے کا قصہ شامل ہے جس نے مجھ پر کوئی چالیس گز کے فاصلے سے حملہ کیا ..... فاصلہ بہت زیادہ تھا ..... اتنے فاصلے سے چیتا تو کیا شیر بھی بالعموم حملہ نہیں کرتا ..... لیکن اس چیتے نے یہ غیر معیاری کام کیا ..... اور ابھی دس گزفاصلہ بھی طے نہیں کیا ہوگا کہ میری چار سو پچاس ایکسپریس کی گولی اس کے شانوں کے عین درمیان ریڑھ کی ہڈی میں لگی اور وہ پیوند زمین ہوگیا ..... الحمداللہ ..... یہ میرے نشانے کا کمال نہیں ..... اللہ تعالیٰ سبحانہ کی مشیت اور عنایت کا کمال تھا ..... ! اس طرح اس نے میرے ذریعے سے چیتے کوفنا کرایا ..... 
تہنا ایک پرندے کو اڑتی حالت میں مارنا آسان نہیں ..... بہت دشوار ہے ..... اور اچھے قادر انداز بھی مشکل ہی سے مار پاتے ہیں.....میں ایک بار ..... تین سال پہلے اس سے بھی زیادہ عرصہ قبل ..... ممکن ہے بتیس سال قبل جب لاہور میں رہتا تھا ..... ایک رات دو بجے تین احباب کے ساتھ چونیاں مرغابی کے شکار کے لیے گیا ..... صبح سویرے جو شکار ہوا وہ تو خیر علیحدہ داستان ہے ،جب ہم واپسی کا ارادہ کررہے تھے ..... ایک مرغابی دور سے اڑتی ہوئی نظر آئی ..... فاصلہ کوئی ستر گز ..... بلندی پر تنہا ..... اس کا رخ سیدھا ترچھا تھا ..... یعنی ایسا نہیں تھاکہ سامنے ایک جانب سے دوسری جانب یا شرکاً غرباً جارہی ہو ..... بلکہ سیدھی ہماری ہی طرف آرہی تھی ..... اور بس ایک نقطہ سا معلوم ہوتی تھی ..... 
میرے ساتھ جو صاحب تھے ..... ان کا نام میں ارادتاً نہیں لکھ رہا ..... بولے 
’’نقوی صاحب ..... اس کو گرائیں ..... ‘‘
’’بسم اللہ ..... ‘‘ میں نے کہا ..... 
میں نے بندوق اٹھائی اور ..... فائر ..... مرغابی سیدھی جس طرح آرہی تھی ویسے ہی آکر ہم سے دس گز پر گری ..... ان صاحب نے اٹھائی اور ذبح کر کے مجھے عنایت کی.....!
میری پچاس سالہ شکاری زندگی میں چند ایسے عجیب نشانے کی کامیابی کے واقعات ہوئے ہیں جو ذہن پر ایک دلکش رنگین تصویر بن کر رقم ہوگئے ..... جب بھی وہ مواقع یا دآتے ہیں طبعیت پر نہایت خوشگوار مسرت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ..... ان میں سے کئی واقعات شیر کے شکار کے ہیں ..... چیتوں کے ہیں ..... ریچھ ہڑیال ..... ہرن ..... سانبھر اور مرغابی کے ہیں ..... !(جاری ہے)

شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

کتابیں -شکاری -