شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 35
یہ جانتے ہوئے کہ آدم خور شیر ہے ..... اس احمق نے اس کے جنگل میں تنہا جانے میں خوف محسوس نہیں کیا ..... اس شخص کی جرات کا اعتراف بھی کرنا چاہیے .....اس کو انتہائی احمق بھی کہا جا سکتا ہے ..... خود کشی کی ایسی کوشش دیوانہ پن ہی کہی جا سکتی ہے .....
اس بدمعاش کا نام ونڈرا تھا ..... نجانے اس لفظ کے کوئی معنی بھی تھے کہ نہیں ..... ’’اس سے کہو مجھے وہ علاقہ دکھائے ..... ‘‘اس کو یہ حکم دیا گیا ..... اور وہ بخوشی راضی ہوگیا .....
دوسرے روز صبح عظمت میاں کو گاؤں میں چھوڑ کر میں ونڈرا کی راہنمائی میں گاؤں سے نکلا ..... اس نے جگدل کا سیدھا راستہ اختیار کیا ..... اس راستے پر پیادہ پا لوگوں کی آمدورفت زیادہ معلوم ہوتی تھی ..... اس لیے کہ گاڑیوں کے راستے پر گھاس آتی تھی .....
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 34 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ونڈرا اچھا چلنے والا تھا ..... اور راستہ بھی ہموار ..... ہم لوگ بیر کنڈ سے صبح سورج نکلتے نکلتے روانہ ہوئے تھے جو ساڑھے پانچ کا وقت تھا ..... ایک گھنٹے بعد راستہ چھوڑ کر ونڈرا ایک پگڈنڈی پر ہو لیا جو کسی قدر بلندی کی طرف جاتی تھی ..... اب ہم گویا پہاڑی پر چڑھ رہے تھے ..... تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ونڈرا کی رفتار سست ہوگئی جو قدرتی بات ہے ..... اگر وہ رفتار کم نہ کرتا تو میں اس کو آہستہ چلنے کا حکم دیتا اس لیے کہ بلندی پر جاتے ہوئے سانس کا پھولنا شکا رکے اصول کے خلاف ہے .....
پینتالیس منٹ بعد ہم لوگ پہاڑی کے کنارے کنارے جاتے ہوئے تقریباً سو گز بلندی پر تھے ..... اور تھوڑی ہی دور پر جگدل نظر آتا تھا ..... ونڈرا نے ایسا راستہ اختیار کیا تھا کہ ہم گاؤں جانے کی بجائے براہ راست ادھر نکل جائیں جدھر جانا تھا .....
آبادی کوئی میل بھر پر رہی ہوگی ..... ہم جس ارتفاع پر تھے وہاں سے آبادی کے گھر مویشی اور کھیت ..... نظر آرہے تھے لیکن زیادہ واضح نہیں تھے۔
تھوڑی اور بلندی پر گئے تو ہم اس سطح پر نکل آئے جس کا میں تذکرہ کر چکا ہوں ..... اس سطح مرتفع کی چوڑائی نصف میل رہی ہوگی..... کسی جگہ گھنے درختوں کے جھنڈ ..... کہیں گھنی جھاڑیاں ..... کو تاہ قامت درخت ..... یہاں اکا دکا آم کے درخت بھی نظر آرہے تھے ..... اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے ویسے ہی ویسے آم کے درختوں کی کثرت ہوتی گئی ..... ان دنوں درختوں میں پھل تو نہیں تھے ..... لیکن جس زمانے میں پھل آتے ہوں گے ان دنوں ان کی کثرت ہوتی ہوگی .....
کالے منھ کے بندر ..... جنھیں لنگور بھی کہا جاتا ہے ..... اس جگہ نظر آتے رہے ..... اور فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ہماری طرف بے بے توجہی ظاہر کی ..... تو یقیناً وہ ہماری نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھے .....
لنگور ..... خصوصاً دوسری اقسام کے بندر بالعموم ..... ہندوؤں کے عظیم محسین شمار ہوتے ہیں، اس لیے کہ بندوں کے جدا اعلیٰ ہنومان نے رام چندرجی کی اس وقت مدد کی تھی جب وہ اپنی رفیقہ حیات سیتا جی کو راون سے چھڑانے لنکا پر حملہ آورہوئے تھے ..... یہ قصہ سب کو معلوم ہے ..... غرضیکہ بندر قابل احترام ہیں ..... ہندوؤں کے لیے تو اور بھی بہت سی جاندار اور بے جان مخلوقات قابل پرستش ہیں .....
عرصے کی بات ہے ایک دفعہ میں امرتسر دہلی جا رہا تھا ..... ٹرین کے ائیرکنڈ یشنڈ کلاس میں چار برتھز تھیں ..... دو نیچے اور دو اوپر..... اس کیبن میں ایک جانب برتھ پر تو میں قابض تھا ..... دوسری طرف میرے مقابل برتھ پر ایک مہذب شخص تھا ..... ہندو تھا ..... اس لیے کہ دھوتی باندھے ہوئے تھا ..... لیکن ساتھ ہی کوٹ پتلون ہینگرپر لٹکے تھے ..... رات تو خیر ہم بہ آرام سوتے رہے ..... صبح میں اٹھا تو دیکھا وہ شخص کافی پہلے بیدار ہوکر نہا دھو چکا تھا ..... میں جب باتھ روم سے فراغت کے بعد واپس آیا تو اس شخص نے اپنے سامان میں سے ایک تصویر نکالی ..... کسی ہندو دیوتا کی تھی ..... کئی سرکئی ہاتھ ..... ہاتھوں میں کسی میں ترشول ‘ کسی میں خنجر ‘ کسی میں سانپ ‘ وغیرہ.....
اس نے تصویر سرہانے سے لٹکا کر رکھی ..... اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سر جھکا دیا ..... ذرا دیر کوئی اشلوک یا سنسکرت کے مضامین پڑھتا رہا ..... پھر اس تصویر کے سامنے سجدے کیے ..... پھر ہاتھ جوڑے کچھ پڑھتا رہا ‘ اس کے بعد جیب سے ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی ۔ا سکو کھول کر سفید رنگ کے کسی مرکب سے اپنی پیشانی پر ٹیکہ لگایا ..... اور ڈبی بند کر کے رکھ لی ..... پھر ہاتھ جوڑ کر اس تصویر کے سامنے سر جھکا یا اور گویا پوجا ختم ہوگئی ..... تصویر واپس بیگ کے اندر ..... !
رات کو نو بجے ٹرین امرتسر سے روانہ ہوئی تھی ..... دوسرے دن میں صبح دہلی پہنچی ..... ذرا ہی دیر بعد مجھے دوسری ٹرین مل گئی جو دلی سے سیدھی دکن جاتی تھی ..... !
بات بندروں کی ہورہی تھی ..... ہندوستان کے بندر بہت بے خوف اور جارح ہوگئے ہیں ..... اس لیے کہ ہندو ان کو کچھ کہتے نہیں..... اور یہ نڈر ہو کر انسان کو ڈراتے ہیں ..... اردومیں گیڈر بھپکی تو سب ہی بول لیتے ہیں لیکن گیڈر کے بجائے اس کو بندر بھپکی ہونا چاہیے..... اس لیے کہ بندر آدمی کو قریب آتے دیکھ کر دانت نکال کر ایک دو قدم بڑھتا ہے جیسے کاٹ کھائے گا ..... اسی کو بندر کا خوخیانا بھی کہتے ہیں ..... یہ صرف بھپکی ہوتی ہے ..... حملہ کبھی نہیں ہوتا ..... اتنی ہمت بندر میں کہاں ..... البتہ اگر دس بارہ پندرہ بندر حملہ آور ہوں..... تو خاصی خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے ..... ! اگرچہ کبھی ایسا کوئی واقعہ میں نے سنا نہیں ..... میرے ساتھ صرف ایک بار حلوے کے مسئلے پر تشویشناک صورت حال پیدا ہوئی تھی ..... !
ایک جگہ نرم زمین پر میں نے شیر کے کئی ماگھ دیکھے جو تازہ تو نہیں تھے لیکن دو ایک روز کے اندر کے تھے ..... اور آگے چل کر ان نشانات کے تعداد میں خاصی برکت ہوئی ..... میں نے خاص طور سے خیال رکھا کہ اس اطراف میں کوئی ایسا بڑا درخت نظر آجائے جس پر میں بیٹھ سکوں ..... کچھ ہی دور پر املی کا ایک درخت اتنا تناور ملا زمین سے چوبیس پچیس فٹ نہایت مضبوط شاخ پر کم از کم جھولا بنایا جاسکے..... میں نے اس درخت کو ذہن میں محفوظ کر لیا .....
دو سو گز چل کر یہ سطح مرتفع ذرا نیچی ہوگئی ..... اور وہ نچلا علاقہ گھنی جھاڑیوں سے بھرا تھا ..... درمیان میں کئی جگہ جانوروں کے بار بار گزرنے کی وجہ سے کچھ گھاس اور جھاڑیاں دب گئی تھیں کچھ شاخیں ٹوٹ کر گئی تھیں اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ ادھر سے جانور گزرتے رہتے ہیں ..... البتہ میں ادھر سے گزرنے کا خطرہ ہر گز قبول نہیں کر سکتا تھا ..... گھاس اتنی بلند تو تھی ہی کہ میں اس میں چھپ جاتا ..... مجھے یہ گمان تھا کہ شاید وہ TRAILS شیر کے گزرنے سے بنے ہوں ..... میں نے گھاس کے نزدیک جا کر ماگھ دیکھنے اور اس گمان کو یقین میں بدلنے کی کوشش نہیں کی .....
یکبارگی گھاس میں جنگلی مرغیوں کا ایک غول پھڑ پھڑا کر اڑا ..... مرغیاں چیخ رہی تھیں ..... مجھے فوری گمان ہوا کہ گھاس میں شیر ہے .....!میں جہاں تھا وہ جگہ بلند تھی ..... جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے ..... گھا س والا قطعہ نشیب میں تھا جس کے اکثر قطعات مجھے بلندی پر ہونے کی وجہ سے نظر آتے تھے لیکن گھاس گھنی تھی میں اس میں چھپے ہوئے جانور کو دیکھ نہیں سکتا تھا .....
گھاس میں اب واضح طور پر حرکت ہوئی ..... اور جو جانور بھی تھا وہ میری جانب تو نہیں آرہا تھا ..... لیکن جس زاویے سے حرکت کر رہا تھا اس کے پیش نظر وہ مجھ سے ساٹھ ستر گز دور مغرب کی جانب گھاس کے قطعے سے باہر آسکتا تھا..... میں نے ایک درخت کے تنے سے لگ کر رائفل اسی طرف سیدھی کر لی ..... وانڈرا کو میں نے درخت کے پیچھے کر لیا ..... اور اس کو دوسری طرف دیکھتے رہنے کی بھی تاکید کی..... اپنے عقب میں غافل ہوجانا دانشمندی نہیں ہوتی ۔(جاری ہے)