شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 34
مرغابی کا شکار ہمیشہ خاصا دلچسپ ہوتا تھا ..... لاہور کے آس پاس بے شمار پانی تھا جن کو لوگ کلر کا پانی کہتے تھے ..... شیخوپورہ ..... مرید کے ‘ گجرات ‘ چونیاں ‘ سرگودھا ‘ قصور‘ اور جلو موڑ کے راستے میں ..... بے شمار مرغابی آتی تھی .....
چونیاں میری محبوب جگہ تھی ..... یہ بھی شاید کلر کا ٹھہرا ہوا پانی تھا ..... دو اڑھائی مربع فیل کے رقبے میں پھیلا ہوا یہ سارا پانی پایاجاتاتھا اور مرغی بکثرت آتی تھی ..... اب تو سب خشک ہوچکا ہے ۔نہ پانی رہا نہ مرغابی۔
شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بھوپال میں 1945ء سے 1952ء تک میں نے بے حد و حساب شکار کیا ..... کسی ہرن ‘ چیتل اور سانبھر مارے ان کا شکار کیا وہ نیل گائے ہے ..... وہ اس لیے کہ جانور کا نہ گوشت ذائقے دار ہوتا ہے نہ کھال کا فرش اچھا بنتا ہے نہ سینگ ہی ہوتے ہیں ..... سات آٹھ انچ کے کالے بھدے سینگ کسی زمرے میں نہیں آتے .....
جو لوگ بلھار شاہ میں میرے لیے پان لائے تھے وہ بہت عمدہ مدراسی پان تھا۔میں کاروان بیرکنڈ کی طرف گامزن تھا ..... نہایت خوش ذائقہ اور خوشبو دار پان سے لطف اندوز ہو رہا تھا ..... دھوپ نکل آئی تھی اور ہوا کہ وہ چبھتی ہوئی کم ہوگئی تھی جو صبح رہی تھی .....
کئی بار نیل گایوں کے بڑے بڑے گروہ ادھر ادھر آتے جاتے نظر آئے ... کم از کم تیس چالیس جانورتو ضرور ہوں گے..... چیتل بھی جا بجا نظر آتے ہے ..... صبح کا وقت تھا ..... یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب جنگل کے مختلف باشندے نقل وحرکت کرتے ہیں ..... کچھ پانی پینے کی فکر میں جاتے آتے ہیں کچھ اپنی رات گزارنے ،کچھ خوراک حاصل کرنے والے مقامات کا رخ کرتے ہیں ..... !
ان علاقوں میں پھل دار درخت بھی بکثرت ہیں ..... یہی وجہ تھی جا بجا نہایت رنگ پرندے بکثرت تھے ..... ایک چھوٹا سا..... نہایت چھوٹا خوش رنگ پرندہ ..... بھی نظرآیا ..... پاکستان اور ہندوستان میں بکثرت ملتا ہے اور بہت لوگ ان کو گھر میں رکھتے ہیں ..... یہ پرندہ ان علاقوں میں بہت کثرت سے نظر آتا ہے ..... گاؤں میں داخل ہونے تک کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا..... نہ شیر نہ کوئی ‘ تازہ آس پاس میں ملا.....
گاؤں خاصا بڑا تھا ..... پندرہ سولہ گھر ..... دور تک پھیلی ہوئی زمین چاروں طرف اونچے اونچے درخت پوش پہاڑ ..... اور گھروں کی ساخت کچھ ایسی معلوم ہوتا تھا وہ گاؤں والے بد حال نہیں تھے .....
لیکن سب کے چہرے فق ..... پریشان ‘ متفکر ..... یہ بات سمجھ میں تھی ..... آدم خور کے علاقے میں رہنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے ..... ہر شخص کے موت کا سایہ ہوتا ہے ..... نجانے کس وقت آدم خور کے ہتھے کون چڑھ جائے .....
ہماری آمد ان کے لیے بڑی خوشی اور بہت ہمت افزائی کی بات تھی گاؤں کے سارے مرد اکثر عورتیں سارے بچے اور کئی کتے ..... ہمارے گرد جمع ہوگئے ..... جیسے ہم لوگ کوئی عجیب مخلوق ہوں ..... سبھی نے باری باری میرے اور عظمت میاں کے پاؤں کو ہاتھ گائے..... لاکھ لاکھ منع کیا گیا ..... !
گاؤں والوں کو ہماری آمد کا علم تو تھا نہیں ..... لیکن تھوڑی ہی دیر میں متصل ایک کچے کمرے کو صاف کے کر درست کر دیا گیا ..... دو چار پائیاں آگئیں جو بان سے بنی ہوئی تھیں ..... غرض یہ کہ ہمارے قیام کا انتظام ہوگیا ..... لوگوں نے بھی بہت روز سے شیر کے بارے میں سنا ..... نہ کسی نے اس کو دیکھا لیکن ان سب کو یقین تھا کہ کسی لمحے بھی وہ آدم خور ان پر حملہ آور ہوسکتا ہے .....
اس روز کافی ماندہ وقت ہم دونوں نے گاؤں والوں سے شیر کے بارے میں گفتگو اور معلومات حاصل کرنے اور گاؤں کے اطراف چکر لگا کر اس جگہ آشنائی پیدا کرنے کی کوشش میں صرف کیا..... کھیتوں اور فصلوں کے درمیان گھومتے رہے اور کئی مقامات پر شیر کے ماگھ بھی نظر آئے جو مٹ چکے تھے ..... ان نشانات سے ہماری معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ..... جنگلوں میں شیر کے ماگھ مل جانا کوئی معنی نہیں رکھتا ..... وہ بھی پرانے ماگھ .....
بیر کنڈ سے شمالی مشرق کی طرف ایک طویل پہاڑی ہے ..... جو پھیل کر سات میل میں دو جگدل کی آبادی کے قریب سے گزرتی ہے ..... یہ پہاڑی اونچی ہے ..... لیکن مجھے بتایا گیا کہ اوپر سطح مرتفع سی بن گئی ہے جو ہموار بھی ہے اور بیشتر رقبہ درختوں سے ڈھکا ہوا ہے..... کئی شریفے کے گھنے جنگل ..... اور جرونجی اور تہندو کے جنگ ہیں ..... جونجانے کہاں تک جاری ہیں .....
اور میں گاؤں واپس آیا تو ایک خوشگوار مگر حیرت انگیز خبر میری منتظر تھی ..... !جگدل کا آیا ہوا ایک شخص وہاں تین دن سے مقیم تھے ..... اس نے بتایا .....
’’نہاروہاں رہتا ہے ..... ‘‘
’’کہاں ..... ؟ ‘‘
’’جگدل سے کوئی تین میل پر جو کالے پہاڑ ہیں ..... ‘‘
’’تم نے وہ جگہ دیکھی ہے ..... ؟‘‘
’’ہاں ..... ‘‘
’’تمہیں کیسے معلوم ہوا ..... ‘‘
’’میں تو ادھر مویشی ڈھونڈھنے گیا تھا ..... ‘‘
’’ایک بار ..... ؟‘‘
’’ہاں ..... ‘‘
’’ایک بار میں کیسے معلوم ہوگیا کہ شیر وہاں رہتا ہے ..... ؟‘‘
’’سرکار ..... میں تو اس کے بعد وہاں پچیسوں بار گیا ..... ‘‘
’’کیوں ..... ؟‘‘
’’ادھر آم کے درخت بہت ہیں .....‘‘
’’آم..... ؟‘‘اس موقعے پر عظمت نے دخل دیا
’’بعض جگہوں پر جنگلی آم ہوتا ہے ‘‘
’’تم نے شیر ہر بار دیکھا ..... ؟‘‘
’’بہت دفعہ ..... ‘‘
’’اس نے تم پر حملہ نہیں کیا ..... ؟‘‘
’’اس نے مجھے دیکھا ہی نہیں ..... ‘‘
یہ بات بڑی تعجب خیز تھی ..... آدم خور شیر کے عین رہنے کی جگہ پر وہ شخص با بار آتا جاتا رہا ..... شیر کو دیکھا بھی اور شیر نے ضرور اس کو دیکھا ہوگا ..... لیکن وہ شخص زندہ تھا ..... !
حیرت ناک ..... ! یہ اپنی نوعیت کا پہلا اتفاق تھا .....لیکن اتفاقات ہم ان ہی واقعات کو کہتے ہیں جو عام وقوعوں سے علیحدہ نوعیت کے ہوں ..... غیر معمولی ہوں اور عام طور سے واقع نہ ہوتے ہوں ۔۔(جاری ہے )