شکار۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 33
شیر اسی نواح میں موجود تھا ..... اور میں بہت پُرامید تھا کہ جلد شکار ہوجائے گا ..... نماز کی بعد میں تیار ہوا اور شکاری لباس زیب تن کیا ..... تعجب یہ ہوا کہ عظمت میاں نے کوئی تیاری نہیں کی .....
’’کیوں بھئی ..... تمہارا کیا ارادہ ہے ..... ؟ ‘‘عظمت میاں ذرا دیر مسکراتے رہے ..... پھر بولے ..... ’’قمر خاں ..... اپن تو بیٹھ گئے ..... بات یہ ہیگی کہ اپن شیر کے شکاری نہیں ہیں گے ..... خوامخواہ ایسے کام میں نہیں گھسنا چاہیے ہیگا جس کے لیے آدمی نہیں بنا ہیگا..... ‘‘
شکار۔۔۔۔۔۔ آدم خوروں کے شہرۂ آفاق مسلمان شکاری کی سنسنی خیز داستان...قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں خاموش رہا ..... دراصل میرا بھی یہی خیال تھا ..... عظمت جس فیصلے پر پہنچے وہ نہایت منصفانہ اور دانشمندانہ فیصلہ تھا ..... اور یہ ان کی غیر معمولی بردباری اور عقلمندی تھی کہ انہوں نے اس نتیجے پر پہنچنے کی ہمت کی ..... بہت کم لوگ ایسے ہوتی ہیں جو اس دانشمندی کے ساتھ اپنے کردار اور اہلیت کی حقیقت سمجھ کر صحیح فیصلہ کر سکیں ..... ہر شخص کی اہلیت کی حدود ہوتی ہیں ..... کم لوگ ان حدود کو پہچانتے ہیں..... میں نے ان کے فیصلے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ..... یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا .....
’’اچھی بات ہے ..... ‘‘ میں نے کہا ’’تم اس کا ضرور خیال رکھنا کہ شیر گاؤں میں بھی وارد ہوسکتا ہے ..... رائفل ساتھ رکھنا اور شام کے بعد خود بھی کمرے میں رہنا اور دوسروں کو بھی تاکید کر دینا کہ باہر نہ نکلیں ..... ‘‘
’’بہتر ہے ..... ‘‘ میں چار دیہاتیوں کے ساتھ گاؤں سے نکلا ..... اور ڈیڑھ گھنٹہ بعد مچان پر بیٹھ چکا تھا ..... دیہاتی حسب سابق کسی قدر آواز سے باتیں کرتے واپس گئے ..... گھوڑی صحیح سلامت اپنی جگہ پر بندھی ہوئی تھی ..... اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر ادھر نہیں آیا .....
وہ رات میں نے خیالات کی آزادی میں گزار دی ..... وہاں آنے کے بعد سے پے بہ پے واقعات ہوتے رہے تھے ..... روزانہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا یا شیر نظر آجاتا ..... کہنا چاہیے کہ یہ تمام ایام بہت ہنگامہ خیز گزرے ..... اور ان مسائل کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ طے کرنے میں دقت نہیں تھی کہ آئندہ دنوں میں بھی یہی صورت حال رہے گی ..... !
صبح گاؤں والے آئے تو میں درخت سے اترا ..... اور واپس آگیا ..... اس کے بعد چھ راتیں اسی طرح گزریں ..... شیر کی نہ کوئی اطلاع نہ نظر آیا ..... گھوڑی کو روزانہ دانہ پانی دیا جاتا رہا ..... چھٹے روز میرے حکم کی تعمیل میں اس کو بھی کھول کر لے آیا گیا ..... حیرت یہ ہے کہ روز شیر اسی نواح میں مجھے یا کسی نہ کسی کو نظر آتا رہا ..... پھر چھ روز سے ادھر نہیں آیا ..... اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کسی اور جانب نکل گیا.....
مجھے اب آرام کی ضرورت بھی تھی ..... شب بیداری کا کسل دن میں سونے سے رفع نہیں ہوتا ..... یہ علیحدہ بات ہے کہ مجھے نہ صرف شکار کی وجہ سے راتوں کو جاگنے کی عادت ہے بلکہ مشاعروں میں شرکت بھی اکثر تمام رات کے شورو شغب پر پھیلی ہوتی ہے ..... مشاعروں می میری شرکت ضروری ..... شکار میں ..... اگر بڑا شکار ہوتو شب بیداری کی ضرورت ..... اس کے باوجود ..... ایک حد ہوتی ہے..... اس کے بعد میں نے دوروز آرام کیا .....
عظمت میاں بھی گویا مجھ سے شرط باندھے تھے ..... میرے برابر کیا مجھ سے دو چار گھنٹے زیادہ ہی سوئے تاانیکہ میں تازہ دم ہوگیا.....
اب سوال یہ تھا کہ میں اسی گاؤں میں ٹھہر کر شیر کے ظہور کی دعائیں کرتا رہوں ..... یا بیرکنڈ کی طرف کوچ کروں ..... میں نے عظمت سے مشورہ کیا .....
’’خاں ..... اپن تو سو سو کر تھگ گئے ہینگے ..... کچھ کرنا چاہیے ہیگا ..... ‘‘
’’کیا مطلب ..... ؟‘‘ میں نے پوچھا
’’بیرکنڈ..... ‘‘وہ مسکرا کر بوے
’’ہوں .....‘‘میں ذرا دیر سوچتا رہا .....
مشکل یہ تھی کہ بیر کنڈ سے بھی کوئی اطلاع نہیں آئی تھی ..... ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شیر کسی اور طرف نکل گیا ..... اورمیں اس خیال کو سر سے نکال دینا چاہتا تھا ..... اس لیے کہ میں ناکام واپس جانے کے لئے آمادہ نہیں تھا ..... شیر کے کسی اور طرف نکل جانے کا مطلب یہ ہوتا کہ نجانے کدھر گیا ہو .....
’’اچھی بات ہے ..... ‘‘ میں نے فیصلہ سنایا ..... ’’کل صبح انشاء اللہ بیر کنڈ کے لیے روانگی ہوگی ..... ‘‘
دوسرے روز فجر کی نماز کے بعد ہی ہم لوگ روانہ ہوئے ..... تین بیل گاڑیاں ساتھ تھیں ..... گاؤں والوں کی ایک جماعت بھی ہمراہ ہوگئی یہ لوگ کئی دن سے بیر کنڈ جانے کا ارادہ کئے ہوئے تھے لیکن آدم خور کے خوف سے روانگی ملتوی رکھی ..... . جیسے جاتے جاتے رات نے اپنے آنسوؤں سے صبح نورانی کا دامن بھگودیا ہو ..... ہوا میں خاصی خنکی تھی اتنی کہ رائفل کی نال ہاتھ میں ٹھنڈی لگتی تھی..... میری رائفل لوڈ کی ہوئی تیار تھی ..... عظمت نے بھی رائفل لوڈ کر رکھی تھی۔ عظمت کے تین آدمی ..... گاؤں کے سات دیہاتی ..... گویا دس آدمی ..... اور دو ہم ..... بارہ مسافروں کا یہ کارواں گاؤں کے کھیتوں کے درمیان سے گزرتا بیر کنڈ کی راہ پر ہوگیا ..... سب ہی گاڑیوں میں بیٹھے تھے ..... میرے سوا ..... میں ساری گاڑیوں کے پیچھے تقریباً بیس قدم کے فاصلے پر چل رہا تھا ..... عظمت میاں مجھ سے پانچ قدم آگے تھے اس لیے کہ ان کو میری یہی ہدایت تھی .....
شیر چیتے یا ..... آدم خور ..... بالعموم بیل گاڑی پر حملہ نہیں کرتے ..... میرے چالیس پینتالیس سالہ تجربے میں صرف ایک آدم خور ایسا ہے جو بیل گاڑیوں پر حملے کرنے لگا تھا ..... ورنہ اور کسی شیر کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ اس نے بیل گاڑی میں بیٹھے لوگوں پر حملہ کیا ہو ..... چیتا بھی بیل گاڑی پر حملہ نہیں کرتا .....
تعجب خیز یہ کہ بیل گاڑی پر بیٹھے ہوئے عام لوگوں سے جنگلی جانور ڈرتے بھی نہیں ..... بار ہا ایسا ہوا کہ بھوپال اور دکن کے جنگلوں میں بیل گاڑی پرمیں چیتلوں ‘ سانبھروں ..... ہرنوں اور نیل گایوں کے پندرہ بیس گز کے فاصلے پر پہنچ گیا ..... اوروہ کھڑے دیکھتے رہے ..... مجھے اگر ان کے شکار کی ضرورت ہوتی تو ایک کو مار لیا .....
میں نے عام طور سے جانوروں کو ہلاک کرنا تقریباً ترک ہی کر دیا تھا ..... 1955 ء کے بعد سے میں نے جتنے چیتل ‘ سانبھر ‘ بارہ سنگھے ‘ نیل ‘ چکارے ‘ ہرن وغیرہ شکار کئے وہ صرف نہایت اعلیٰ ٹرافی ہونے کی صورت میں شکار کئے ..... امریکہ میں بھی میرا شکار نہایت محدود ہے ..... مجھے اب کسی شکار کی حسرت نہیں ..... میں اپنے پینتالیس پچاس سال کے دوران ہر قسم کے شکار کو انتہا تک کر چکا ..... حتیٰ کہ تیتر بٹیر کے شکار سے شیرتک سب کچھ کرلیا.....
ایک زمانہ تھا کہ میں روزانہ شام کو بندوق لے کر داروغہ والے سے ذرآگے راوی کے کنارے نکل جاتا اور ایک گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے اندر چار پانچ تیتر مار کر آتا ..... لیکن اس زمانے میں جب تیتر کے شکار کی آزادی ہوتی تھی ..... اس کے تیتر کے لیے ہفتے میں چند دن مخصوص کر دیئے گئے میں ان کی سخت پابندی کرتا تھا ..... (جاری ہے )