کینیڈا میں ہونے والے ”جی سیون“ممالک کے اجلاس میں کینیڈین حکومت نے بھارتی وزیراعظم کو بھی بطور مہمان شرکت کی دعوت دی،جس پر کینیڈا میں مقیم سکھ کمیونٹی نے سخت احتجاج کیا ہے،واضح ہو کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا کینیڈا کی سر زمین پر قتل ہوا جس کا الزام سکھ کمیونٹی نے بھارت پر عائد کیا،سابق وزیراعظم کینیڈا جسٹن ٹروڈو نے اس پر احتجاج کیا اور بھارت سے ملزم کینیڈا کے حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کیا، جس پر بھارت اور کینیڈا میں اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے، بعدازاں کینیڈین حکومت نے رواں سال ہونے والے عام انتخابات میں بھارتی مداخلت کا بھی اندیشہ ظاہر کیا تھا، کینیڈین حکام کے مطابق بھارتی وزیراعظم اور وزیر خارجہ بھی خالصتانی کارکن کو قتل کرنے کی سازش سے آگاہ تھے تاہم نئی دہلی نے ایسی رپورٹس کو مسترد کر دیا تھا،کینیڈین میڈیانے قومی سلامتی سے وابستہ ایک سینئراہلکار کے حوالے سے یہ اطلاع دی کہ سکھ کارکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی سازش بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ترتیب دی تھی اور وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر خارجہ ایس جے شنکر ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو قتل کے اس منصوبے بارے میں بتایا گیاتھا،کینیڈا نے بھارتی ہائی کمشنر سنجے ورما اور کچھ دیگر سفارت کاروں کو قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں ملک سے نکال دینے کا اعلان کیا،بدلے میں نئی دہلی نے کینیڈین چارج ڈی افیئرز اسٹیورٹ وہیلر اور پانچ دیگر سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔
سکھ کمیونٹی کا کینیڈا سے تعلق بہت پرانا ہے، 1903ءمیں سکھوں کو ہانگ کانگ میں متعین برطانوی فوجیوں سے کینیڈاکے بارے میں معلومات ملیں،اس کے بعد سکھ کمیونٹی سے متعلقہ افراد نے کینیڈا کا رخ کر لیا، 1908ءتک پانچ ہزار افرادنقل مکانی کر کے کینیڈا منتقل ہو چکے تھے، جن میں 90فیصد سکھ برادری سے تھے،یہ سب لوگ برٹش کولمبیا کے علاقہ میں آباد ہوئے، 1947ءمیں تقسیم ہند کے بعد سکھوں کو کینیڈا میں ووٹ کا حق مل گیا، 2011ءتک15لاکھ افراد نے کینیڈا میں سکونت اختیار کی ان میں سب سے زیادہ تعداد سکھوں کی تھی،2021ءکی مردم شماری میںسکھوں کی کینیڈا میں آبادی سات لاکھ تھی،یہ سب سے زیادہ صوبہ انٹاریو، برٹش کولمبیا اور البرٹا میں رہتے ہیں،اِسی طرح پنجابی شائد کینیڈا کی تیسری بڑی زبان بن چکی ہے ،سکھ کمیونٹی کا کینیڈا کی سیاست میں بھر پور کردار ہے، 1980ءمیںمنموہن سنگھ سہوتہ پہلی مرتبہ برٹش کولمبیا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے،اس کے بعد سے سکھ برادری کی وفاقی اورصوبائی حکومتوں میں بھرپور نمائندگی ہے،کینیڈا کی تیسری بڑی سیاسی جماعت نیو ڈیمو کریٹک پارٹی کے لیڈر سکھ رہنما سردار جگمیت سنگھ تھے، جنہوں نے حالیہ الیکشن میں شکست کے بعد عہدے سے استعفیٰ دیدیا تھا،گزشتہ الیکشن میں جگمیت سنگھ کی پارٹی نے 24نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ، نیو ڈیموکریٹک پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی شرح 15,9فیصد تھی۔
کینیڈا میں سکھ کمیونٹی کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جسٹن ٹروڈو کی پہلی کابینہ میں سکھ وزراءکی تعداد چار تھی،2015ءمیں جسٹن ٹروڈو نے کہاہماری کابینہ میں سکھ کمیونٹی کی جس قدر نمائندگی ہے اتنی نمائندگی بھارت نے بھی سکھوں کو نہیں دی،جبکہ بھارت میں سکھ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور کینیڈا میں ان کی آبادی پانچ لاکھ ہے، جبکہ جگمیت سنگھ کنگ میکر بن چکے ہیں،کینیڈا میں مقیم وہ سکھ رہنماجن کو مقامی پولیس نے بھارت کے حوالے سے خبردار کر رکھا ہے اور کہا ہے ان کی جان کو خطرہ ہے،وہ کینیڈین حکومت کی طرف سے نریندر مودی کو جی سیون کانفرنس میں شرکت کی دعوت پر برہم ہیں۔
اہم بات یہ کہ کینیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی ایک سابق بینکار ہیں،سیاسی میدان میں انہیں پہلی کامیابی جسٹن ٹروڈو کے استعفیٰ کے بعد ملی جب انہیں عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم منتخب کیا گیا، امریکہ کے ساتھ ہونے والی معاشی جنگ میں مارک کارنی نے اپنے پتے نہایت دانشمندی سے کھیلے جس پر عام انتخابات میں ان کی پارٹی کو سادہ اکثریت ملی،مارک کارنی نے بھارتی وزیراعظم کو جی سیون کانفرنس میں دعوت بھی معیشت اور تجارت کو سامنے رکھ کر دی کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ بھی ہے،لیکن سکھ کمیونٹی سوال کر رہی ہے کہ کیا سکھوں کی زندگی اور انسانی حقوق کی بجائے بھارتی منڈی اہم ہے ۔
بھارت اور کینیڈا میں گزشتہ چند ماہ میں ہونے والی کشیدگی کی وجہ سکھ کمیونٹی ہی تھی،سکھ کمیونٹی بھارت کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اکثریت کی حامل ہے اس کی دوسری بڑی اکثریت کینیڈا میں مقیم ہے، کینیڈین حکومت اتنی بڑی آبادی کے خدشات تحفظات کو نظر انداز نہیں کر سکتی اسے بھارت سے تعلقات بڑھانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہئے اور کوئی بیچ کی راہ تلاش کرنا ہو گی اس حوالے سے سکھ برادری کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے،معاشی مفادات کے بجائے بنیادی انسانی حقوق کو ترجیح دینا ہو گی ورنہ صورتحال بتدریج خطرناک ہو رہی ہے،یہاں مارک کارنی کی فراست کا امتحان بھی ہے ،ایک طرف اب سات لاکھ سے زیادہ کینیڈین شہری ہیں جن کا سیاست میں بھی بھرپور کردار ہے دوسری طرف معیشت کی بہتری اور نئی مارکیٹ کھوجنا ہے، اہمیت کے لحاظ سے دونوں اہم ہیں اور کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اس نازک موقع پر سکھ کمیونٹی کو بھی تحمل سے کام لینا ہو گا،احتجاج کرنا ان کا حق ہے وہ کریں مگر جمہوری انداز میں،کینیڈا وہ زمین ہے جس کی آغوش ماں کے جیسی ہے،جو آتا ہے جدھر سے آتا ہے اسے اس آغوش میں پناہ مل جاتی ہے،اِس لئے قومی سلامتی کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔
اگر چہ دنیا بھارت کو ایک بڑی منڈی کے طور پر اہمیت دیتی ہے، مگر مودی خود بھارت کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے، کبھی بھارت کا سیکولر چہرہ مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا،مودی نے بھارت کو ”جنونی ہندو ریاست“ بنا دیا ہے،یہ صورتحال بھارت کےلئے بھی خطرناک ہے،اِس لئے بھارت کے معتدل مزاج سیاستدانوں کو جلد اس کا ادراک کرنا ہو گا ورنہ بات بگڑ بھی سکتی ہے،ابھی تو بھارتی حکومت کو ”خالصتان تحریک“ کا سامنا ہے، مگر جب خالصتان تحریک کامیاب ہو گی تو وہ بارہ ریاستیں جہاں بھارت سے علیحدگی کی تحریک راکھ بن گئی، مگراس راکھ میں دبی چنگاریاں کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہیں،تیسری جنگ عظیم کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے سنا ہے کہ اس کا آغازبر صغیر سے ہو گا،ایک طرف بھارتی اژدھام ہے تو دوسری جانب چین کا جم غفیر،روس بھی طاقت کا توازن اپنی طرف موڑنے کے لئے بے تاب ہے،ایسے میں کوئی دبی چنگاری عالمی امن کو تباہ کر سکتی ہے،اِس لئے بھارتی قیادت کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے،ملک گیری سے دنیا میں ہندو توا کا نفاذ ممکن نہیں،بھارتی سکھ پُرعزم ہیں، سابق وزیراعظم کینیڈا جسٹن ٹروڈو نے ہردیپ سنگھ کے قتل کے بعد بہت ٹھوس اور منطقی اقدام کیا تھا جس سے کینیڈا اور بھارت میں کشیدگی در آئی،مگر سکھ کمیونٹی راضی ہو گئی،مارک کارنی کا اقدام بھی انوکھا نہیں یہ دور ہی تجارت کا ہے،معیشت کی مضبوطی ریاست کا استحکام ہے، اِس لئے وقت جوش کا نہیں ہوش کا ہے،منڈیاں بھی بڑھائیں، مگر اپنے شہریوں کو بھی بچائیں۔
٭٭٭٭٭