یہ کیسا علم ہے ؟ 

Nov 19, 2024 | 01:18 PM

تحریر :ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم 
 جرجان سے طوس جانے والا قافلہ دامن کوہ میں پہنچا ہی تھا کہ اچانک پہاڑ کمین گاہ سے ڈاکو اس پر ٹوٹ پڑے اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا ۔اسی دوران ان ڈاکوؤں کے سردار نے دیکھا کہ قافلے کا ایک لڑکا اپنا تھیلا ادھر اُدھر چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ سردار نے اپنے ساتھی سے اس لڑکے کو پکڑ کر لانے کو کہا۔ڈاکو نے اسے لڑکے کو دبوچا اور سردار کے حوالے کردیا ۔

اس لڑکے نے اپنے تھیلے کو مضبوطی سے سینے سے چمٹا لیا ۔یہ دیکھ کر سردار نے وہ تھیلا اس سے چھین لیا، لڑکا منت سماجت اور گریہ زاری کرتے ہوئے کہنے لگا ۔ ”تھیلے میں جو نقدی ہے وہ آپ لےلیں ،مگر جو کاغذات اس میں ہیں وہ براہِ کرم مجھے لوٹا دیں “۔

سردار بڑی حیرت سےاسےدیکھنے لگا کہ خلاف معمول اسے نقدی کی توفکر ہے نہیں، مگر ان کاغذات کی بڑی فکر ہے۔

 آخر کیوں ؟جب ڈاکو نے اس کی وجہ پوچھی تو لڑکےنے کہا کہ ان اوراق میں میرا وہ علمی سرمایہ ہے جو میں نے بڑے مصائب جھیل کر ،سفر کی تلخیاں سہہ کر حاصل کیا ہے، اگر یہ مجھے سے چھن گیا تو میں اپنے اس عزیز ترین علمی سرمایہ سے محروم ہوجاؤں گا۔

سردار چند لمحوں کےلیے حیرت میں ڈوب گیا ،پھر اس نے کہا،’’ صاحبزادے !وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اُڑیں ،ہم تو یہ سنتے آئے ہیں کہ علم تو وہ دولت ہے، جسے کوئی چُرا نہیں سکتا‘‘۔ یہ کہہ کر تھیلا نوجوان کی جانب پھینک دیا۔

وہ یہ بات کہہ کر آگے بڑھ گیا، مگر ادھر اس لڑکے کے دل و دماغ میں ایک ہلچل سے مچ گئی۔ سردار کے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ ” وہ علم کس کام کا جس کو میرے جیسے ڈاکو لے اُڑیں ۔“
سوچتے سوچتے اس نے اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر لیا ،وہ یہ کہ اب لکھے ہوئےعلم پر کبھی انحصار نہیں کرے گا جو کچھ سیکھے گا، اسے قرطاس و قلم کے حوالے کرنےکے ساتھ دل و دماغ میں نقش کرے گا ۔ اس فیصلےنے اس کی زندگی کا رنگ ہی بدل ڈالا۔ تحصیلِ علم کے لیے پھر اپنا سب کچھ قربان کرڈالا ، اپنے سینے اور اپنے دل و دماغ کو علوم کا مرکز بنالیا۔

پھر اس نوجوان کو سارے زمانے نے امام غزالیؒ کے نام سے پہچانا جو کہ علمی دنیا کا درخشندہ ستارہ بن کر جگمگا ئے۔ انہیں تحصیل علم کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ علم کے میدان میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ عقلیات اور فلسفہ ان کی علمی زندگی کا اوڑھنا بچھونا تھا۔آج ہمارے بچے ہم سے زیادہ قابل اور اہل علم جان جاتے ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے ان کا علم ان کی عملی زندگی پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال رہا وہ علم جس کے نور سے انسان کو انسانیت کے اس مقام پر ہونا چاہیے جسے مسجود ملائک کہا جاتا ہے وہ انسان  خود غرض اور مفاد پرست بنا ہوا ہے ۔ آج جس قدر علم عام ہے اسی قدر برائی بھی زیادہ ہے ۔ سادہ دور میں کوئی کوئی گناہگار ہوتا تھا آج اہل علم اپنے گناہ کو نئے نام دے کر اس کا جواز بنا کر ہر برائی میں مبتلا ہو رہے ہیں ۔ خود کو ماڈرن اور پڑھے لکھے کہنے والے یہ لوگ تمیز اور ادب سے خالی ہیں ۔ ان سے بات کر کے دیکھو تو منفی سوچ اور خیالات کی بدبو سے ان کے کردار بری طرح داغ دار ہیں ۔ حیا اور زندہ ضمیری ان کے ہاں دیکھنے کو نہیں ملے گی ۔

 ایسا علم جو انسان کے اپنے لیے اپنی شخصیت کے لیے مفید نا ہو وہ دوسروں کو کیا نفع دے گا ۔ علم کا نفع یہ ہے کہ تم اس کے مطابق عمل کرو۔علم وہ ہے جو آخرت کی فکر پیدا کرے اور دنیا کی محبت کم کرے۔علم وہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کے معاملات میں انسان کی رہنمائی کرے۔علم وہ نہیں جو زبان پر ہو، بلکہ علم وہ ہے جو عمل میں ہو۔وہ علم جو دل کو تقویٰ کی طرف راغب کرے اور اعمال کو بہتر بنائے، وہی مفید علم ہے۔ علم مال سے بہتر ہے کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور مال تم سے حفاظت چاہتا ہے۔ہمارے علم نے اور کچھ نفع دیا ہے یا نہیں مگر یہ سچ ہے کہ ہماری قوم کے بچے اپنے ماں باپ کو کہتے ہیں بابا آپ کو کیا پتہ ، ماما آپ نہیں جانتی  ۔وہ علم کون سا علم ہے جو آپ کے دل کی ہر خواہش جان لینے والے ماں باپ کو ان پڑھ کر دے ۔ ؟
 ایک دن ادب کی فیکلٹی میں ایک بزرگ آدمی پہلے دن کی کلاس کے لیے داخل ہوا۔ طلباء نے اسے دیکھتے ہی احتراماً کھڑے ہو کر اسے استاد سمجھا، مگر وہ خاموشی سے ان کے درمیان جا کر بیٹھ گیا۔ جب کلاس ختم ہوئی تو طلباء حیرانی کے ساتھ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ادب سے پوچھا: "جناب، آپ کون ہیں؟"بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا: "میں ایک موچی ہوں، جوتے مرمت کرتا ہوں۔ میرے سات بیٹے ہیں، جو سب ڈاکٹر، انجینئر، اور ایک افسر ہیں، اور میری بیٹی فارماسسٹ ہے۔" طلباء نے تعجب سے پوچھا: "تو پھر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"بزرگ نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر بولے: "ایک دن ہم سب خاندان کے ساتھ بیٹھے تھے، اور میرے بچے کسی علمی موضوع پر بات کر رہے تھے۔ میں نے بھی اپنی رائے دینے کی کوشش کی، مگر میرے ایک بیٹے نے کہا: 'بابا، معاف کیجیے گا، ہم ایک علمی موضوع پر بات کر رہے ہیں اور آپ کو اس کا علم نہیں ہے۔"

یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، لیکن لہجے میں ایک گہرا درد۔ "میرے بیٹے کے اس جواب نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ دیا۔ یہ سن کر میرا دل دکھ سے بھر گیا، مگر میں نے کچھ نہیں کہا۔ اس رات میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے تعلیم حاصل کرنی ہے، تاکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ ان کی باتوں میں شامل ہو سکوں۔"

اگلے دن میں نے جا کر نویں جماعت کی نصابی کتابیں خریدیں اور اپنی دکان میں بیٹھ کر خاموشی سے پڑھنا شروع کر دیا۔ کسی کو کچھ بتائے بغیر میں نے امتحان دیا اور کامیاب ہو گیا۔ پھر میں نے کالج کی کتابیں خریدیں اور3 سال تک انہیں پڑھتا رہا، یہاں تک کہ مجھے امتحان دینے کی اجازت مل گئی۔ میں نے امتحان دیا اور کامیاب ہو گیا، اور ابھی تک میرے گھر والوں کو کچھ معلوم نہیں۔"طلباء نے حیرت اور احترام کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بزرگ کی باتیں سنیں۔بزرگ نے آخر میں کہا: "آج میں نے یونیورسٹی کی تعلیم کا آغاز کیا ہے، اور ان شاء اللہ جب میں گریجویٹ ہو جاؤں گا، تو اپنے بچوں کو بلا کر کہوں گا: 'یہ ڈگری اس موچی کی ہے جس نے آپ سب کو پالا، آپ کی تعلیم و تربیت کی، اور آپ کی شادیاں کیں۔ اب میں آپ کے ساتھ بات چیت میں شریک ہو سکتا ہوں۔" 

 علم جب عمل سے خالی ہو ، علم جب ادب سے خالی ہو ، علم جب تربیت سے خالی ہو تو وہ محض معلومات کا ایک مجموعہ رہ جاتا ہے بالکل ایسا بھوسہ جو جانور کا پیٹ تو بھرتا ہے مگر اس میں غذائیت نہیں ہوتی ۔ ایسے علم سے نا روح متاثر ہوتی ہے نا دل نا دماغ ۔ 

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں