اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) عمران خان، تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے اقتدار بدر ہونے کے بعد سے اب تک مسلسل غلط پتّے چل رہے ہیں، ایک کے بعد ایک غلطی اور ایک کے بعد ایک ناکامی نے اُنہیں بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اورسینیٹر عرفان صدیقی نے تحریک انصاف اور عمران خان کی سیاسی تاریخ کھل کر بیان کر ڈالی ۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے کالم میں عرفان صدیقی نے لکھا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی، عمران خان نے 24 نومبر کو ’’یومِ مارو یا مرجاؤ‘‘ قرار دے دیا ہے۔ دیکھیے اِس بحر کی تہہ سے کیا اُچھلتا اور گنبد نیلوفری کیا رنگ بدلتا ہے۔اِس سوال کے جواب کیلئے افلاطونی دانش کی ضرورت نہیں کہ تحریکِ انصاف کو کس نے بند گلی کے اندھے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے؟ پی۔ٹی۔آئی کی تخلیق سے لے کر آج تک،28 برس کے طویل عرصے میں، عمران خان نے سیاست کو جمہوری اقدار، اُجلی سیاسی روایات، وسعتِ نظری، کشادہ ظرفی، افہام وتفہیم اور خُوئے دِل نوازی کے بجائے، ہنگامہ و پیکار، اِلزام ودُشنام، بُغض وانتقام، نفرت وعداوت اور جنگ وجدل کا بے رحم کھیل سمجھا۔ اُنہوں نے کبھی اپنی تاریخ پر بھی نظر نہیں ڈالی جو سیاستدانوں کی باہمی تلخیوں اور نفرتوں کے باوجود بعض نہایت روشن نمونے بھی رکھتی ہے۔ پیپلزپارٹی اور اُس کے سیاسی مخالفین کے مابین شدید جنگ برسوں جاری رہی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حریفانہ کشمکش کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک یہ آتشکدہ دہکتا رہا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ دونوں سابق وزرائے اعظم کی جلاوطنی کے دوران میں، محترمہ بے نظیر بھٹو، اپنے شوہر آصف علی زرداری کے ہمراہ جدّہ کے سرور پیلس پہنچیں اور یکم نومبر2005ءکو پاکستانی سیاست کی تاریخ کا ایک روشن باب رقم کیا۔ اگلے دِن سعودی عرب کے معروف اخبار ’’عرب نیوز‘‘ نے سرخی جمائی Benazir, Sharif Bury the Hachet
(بے نظیر اور نوازشریف نے باہمی اختلافات کو دفن کردیا)
کالم میں عرفان صدیقی نے مزید لکھا کہ کم از کم دو مناظر تو عمران خان کی یادداشت میں بھی زندہ ہوں گے۔ 2013کی انتخابی مہم کے دوران وہ زخمی ہوئے تو مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم2 دِن کے لیے معطل کردی۔ پہلے شہبازشریف اور پھر نوازشریف اُن کی مزاج پرسی کو پہنچے۔ وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف بنی گالہ، خان صاحب کے گھر پہنچے اور ایک نئے سفر کے آغاز کی اپیل کی۔ خان صاحب کی کشتِ سیاست میں ہم آہنگی ومفاہمت کی کوئی کونپل نہ پھوٹی۔ چند ماہ بعد وہ ’’نوازشریف کو گھسیٹ کر وزیراعظم ہاؤس سے نکالنے کے لیے ’’شاہراہِ دستور پر آ بیٹھے اور کامل 4 ماہ بیٹھے رہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی خان صاحب کی سیاست کے رنگ ڈھنگ نہ بدلے۔ کیا آپ کسی ایسے وزیراعظم کا تصوّر کر سکتے ہیں جو اپنے اقتدار کے 1330دنوں میں ایک بار بھی قائدِ حزب اختلاف سے مکالمہ نہ کرے اور ایک بار بھی ہاتھ تک نہ ملائے؟ اُفتادِ طبع کی اِس تندی وتیزی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران خان، سیاست میں پرلے درجے کی بے ہنری اور انتہا کو پہنچی بے حکمتی کا نوحہ بن کر رہ گئے۔
’’یوم مارو یا مرجاؤ‘‘ تک آ پہنچنے کا سبب یہ ہے کہ عمران خان، تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے اقتدار بدر ہونے کے بعد سے اب تک مسلسل غلط پتّے چل رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک غلطی اور ایک کے بعد ایک ناکامی نے اُنہیں بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ تازہ ترین ’’فائنل کال‘‘ کا اصل محرک یہ ہے کہ 190 ملین پائونڈ کا مقدمہ تمام تر ٹھوس شواہد کے ساتھ کنارے آن لگا ہے۔ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل،9 مئی کے کئی راز اُگل سکتا ہے۔ جلسے جلوسوں کی جارحانہ حکمت عملی اور پسِ پردہ کی دلربائی، اُس قبیلے کا دِل موم نہیں کرسکی جس سے خان صاحب، مشکل کشائی کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ ’’گُڈ ٹو سی یو‘‘ عدلیہ کا باب بھی بند ہوچکا ہے۔ لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرکے، امریکی ارکانِ کانگریس کے ذریعے پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی کوششیں، بھارت اور ہمارے دشمنوں کے دِلوں میں تو ضرور لالہ وگل کھلا رہی ہیں، پاکستان پر کوئی اثرات نہیں ڈال رہیں۔ آخری حربہ یہی ہے کہ فتنہ وفساد کی آگ بھڑکائی جائے۔ کچھ لاشیں گریں، کچھ خون بہے، کچھ شعلے بھڑکیں، کچھ عمارتیں بھسم ہوں اور اِس آتشیں احتجاج کی حدّت سے فوج کا دِل اور اڈیالہ جیل کے آہنی وفولادی دروازے موم کی طرح پگھل جائیں۔
کالم کے آخر میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ برطانوی اخبار ’’گارڈین‘‘ نے کہا ہے کہ ’’عمران خان کی تازہ مہم جوئی کا اصل مقصد فوج کو مذاکرات پر مجبور کرنا ہے۔‘‘ لیکن فوج واضح کرچکی ہے کہ پہلے 9 مئی کے حملوں پر پوری قوم سے معافی مانگو، پھر ہم سے نہیں، سیاسی جماعتوں سے بات کرو۔ اڈیالہ کا پھاٹک کھل بھی جائے تو وہ ’’چور اور ڈاکو‘‘ بیانیے کی کال کوٹھڑی سے کیسے نکلیں جسے اندر سے تالا ڈال کر انہوں نے چابی سلاخوں سے باہر پھینک دی ہے۔ پی۔ٹی۔آئی کے پاس ’’چور اور ڈاکو‘‘ کی کریانہ فروشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ جس دِن وہ نواز، شہباز، زرداری اور بلاول کے ساتھ بیٹھیں گے اور یہ منظر ٹی وی سکرینوں کی زینت بنے گا، اُس دِن پی ٹی آئی کی 28 منزلہ عمارت دھڑام سے زمیں بوس ہوجائے گی اور خان صاحب کیلئے اپنے پیروکاروں سے آنکھیں ملانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ چور، چور نہ رہے، ڈاکو، ڈاکو نہ رہے، تو تماش بینوں کا مجمع لگانے کے لیے خان صاحب کی پٹاری میں کیا رہ جائے گا؟
بے حکمتی، بے ہنری اور بے تدبیری کا سورج سوا نیزے پہ کھڑا ہے اور مایوسی ونامرادی کی انتہا کو پہنچی بے سمتی، ایک اور 9 مئی کی تلاش میں بھٹکتی قدیم داستانوں کے بَدمست دیو کی طرح ’’آدم بو آدم بو ‘‘ پکار رہی ہے۔