عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 93

Oct 19, 2018 | 02:28 PM

ادریس آزاد

کنٹا کوزین نے ’’اور خان‘‘ سے چھ ہزار سپاہی مانگے اور اور اس حمایت کے عوض اپنی لڑکی تھیوڈ ورا کو اسکی شریک زندگی بنانے کے لئے پیش کیا۔ اور خان نے یہ شرط منظور کر لی۔ 1345ء میں چھ ہزار سپاہی کنٹا کوزین کی مدد کے لیے یورپ بھیجے۔ کنٹا کوزین نے ان سپاہیوں کی مدد سے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا جوملکہ کے قبضے میں تھا۔ ملکہ کو مجبوراً صلح کے لئے راضی ہونا پڑا اور صلح اس عجیب بات پرہوئی کہ کنٹا کوزین اور اس کی بیوی نیز ’’ملکہ اینا‘‘ اور شہزادہ جان پلیولوگس۔۔۔چاروں کے چاروں بیک وقت تخت نشین کر دیئے جائیں۔ چنانچہ چاروں کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی۔ اس اتحاد کو اور زیادہ مضبوط کرنے کے لئے کنٹاکوزین نے اپنی چھوٹی لڑکی کی شادی نوجوان شہنشاہ جان پلیولوگس سے کر دی۔’’اور خان‘‘ کا نکاح بھی شہزادی تھیوڈورا سے ہوگیا۔ اور خان نے تھیوڈورا کو اس کے آبائی مذہب مسیحیت پر قائم رہنے کی اجازت دے دی۔

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 92 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لیکن اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور کنٹا کوزین ایک مرتبہ پھر تاج و تخت کی ہوس میں دیوانہ ہو کر عثمانی فوج کی مدد مانگنے پر مجبور ہوگیا۔ 1353ء میں اس نے حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے چاہے۔ اس وقت تک شہزادہ جان پلیو لوگس جوان ہو چکاتھا۔ شہزادے نے کنٹا کوزین کی مخالفت کی اور خان جنگی شروع ہوگئی۔ کنٹا کوزین کو عثمانی امیر’’اور خان‘‘ نے اس مرتبہ بیس ہزار سپاہیوں سے مدد دی جن کا سپہ سالار ’’اور خان‘‘ کا لڑکا سلمان پاشا تھا۔ اس مرتبہ مدد کے بدلے میں کنٹا کوزین نے اور خان کو اپنے یورپین ساحل کا ایک قلعہ معاوضے کے طور پر پیش کیا۔ یہی وہ دن تھا جسے یورپ میں مسلمانوں کے پہلے قبضے کادن کہا جا سکتا ہے۔ کنٹا کوزین نے عثمانی سپاہیوں کی مدد سے جان پلیو لوگس کو شکست دے کر قسطنطنیہ کے تخت پر قبضہ کرلیا۔ سلیمان پاشانے حسب معاہدہ یورپی ساحل کے قلعہ’’زنپ‘‘ پر قبضہ کرکے اس میں عثمانی دستے متعین کر دیئے۔ اس سے چند دن بعد تھریس کے علاقے میں زلزلہ آیا اور بہت سے شہروں کی فصلیں منہدم ہوگئیں۔ انہی میں ’’گیلی پولی‘‘ بھی تھا۔ جو دردانیال کے مغربی ساحل پر سب سے زیادہ اہم قلعہ تھا۔ یہ قلعہ زنپ کے قلعہ سے تھوڑے فاصلے پر واقع تھا۔ سلیمان پاشانے اسے تائید غیبی خیال کیا اور گیلی پولی پر فوراً قبضہ کرلیا۔ قلعہ کے یونانی دستوں نے یہ سمجھا کہ خدا کی مرضی یونہی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کوئی مزاحمت نہ کی۔
گیلی پولی کی فتح سے ترکوں کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ان واقعات سے کنٹا کوزین کے خلاف قسطنطنیہ میں سخت برہمی پھیلی جس نے بغاوت اور انقلاب کی شکل اختیار کرلی۔ ہر شخص کنٹا کوزین پر غداری وطن کا الزام عائد کرتا تھا اور اسی کو ترکوں کے یورپ میں لانے کا ذمہ دار قرار دیتا تھا۔ آخر کنٹا کوزین کو رائے عامہ سے مجبور ہو کر تاج و تخت سے دستبردار ہونا پڑا اور اس نے اپنی زندگی کے بقیہ تیس سال ایک خانقاہ میں گزار دیئے۔ اس مدت میں کنٹا کوزین نے اپنے عہد کی ایک تاریخ لکھ ڈالی۔ یہی وہ کتاب تھی جسے قسطنطنین اچھی طرح پڑھ چکا تھا۔ جان پلیو لوگس تخت پر بیٹھا تو اسے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرنی پڑی اور مجبور ہو کر’’اور خان‘‘ کا قبضہ یورپی قلعوں پر تسلیم کرنا پڑا۔ یوں گویا سلطنت بازنطینی دولت عثمانی کی باجگزار بن گئی۔ کچھ دنوں تک تو شہنشاہ قسطنطنیہ خاموشی کے ساتھ خراج ادا کرتا رہا۔لیکن پھر اسے اپنی محکومی ناقابل برداشت محسوس ہونے لگی۔ چنانچہ 1369ء میں شہنشاہ نے خود ’’روم‘‘ کا سفر کیا اور پوپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یورپ کی مسیحی حکومتوں کو دولت عثمانیہ کے خلاف ابھارنے کی درخواست پیش کی۔ اس نے پوپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی ذلت گوارا کی اور یونانی کلیسا کے ان تمام عقائد سے اپنے آپ کومنحرف ظاہر کیا جو رومن کیتھولک چرچ سے مختلف تھے۔ یوں مذہبی معاملات میں اس نے ’’کلیسائے رومہ‘‘ کی برتری تسلیم کرلی۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود اس کامقصد حاصل نہ ہوا اور مسیحی حکومتیں ترکوں کے خلاف اعلان جنگ کے لئے آمادہ نہ ہوئیں۔ چنانچہ شہنشاہ ناکام و نامراد قسطنطنیہ کو واپس ہوا۔ 
واپسی میں جب وہ وینس سے گزر رہا تھا تو ’’دیان‘‘ کے بعض ساہوکاروں نے جن سے رومہ کے سفر کے لئے اس نے روپیہ قرض لیا تھا اسے گرفتار کرلیا۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ قرض ادا کر سکتا۔ اسک ا بڑا لڑکا ایڈرونیکس جسے وہ قسطنطنیہ میں اپنا جانشین بنا گیا تھا حکومت کی لذت سے آشنا ہو کر باپ کی رہائی کا خواہشمند نہ تھا۔ اس لئے اس نے بھی قرض اداکرنے کی کوشش نہ کی۔ لیکن چھوٹے لڑکے ’’مینوئیل‘‘ نے اپنی املاک فروخت کرکے باپ کے قرض کی رقم فراہم کی اور شہنشاہ کو آزاد کرایا۔ قسطنطنہ پہنچنے کے بعد شہنشاہ نے اینڈرونیکس کو حکومت سے الگ کر دیا اور اس کی جگہ مینوئیل کو اپنا ولی عہد مقرر کیا۔
اینڈرونیکس کا ایک لڑکا تھا جو اپنے باپ کی حق تلفی پر سخت برافروختہ ہوا۔ اس نے کسی طرح عثمانی امیر مراد اول کے بیٹے ’’شہزادہ صادو جی‘‘ کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ دونوں مل کر شہنشاہ اور ’’مراد‘‘ کو تخت سے اتار دیں اور ان کی جگہ خود فرمانروا بن جائیں۔ مراد اس وقت ایشیائے کوچک میں تھا اور ’’صادوجی‘‘ یورپ میں ترکی سپاہ کا افسر اعلیٰ تھا۔ اسنے مراد کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر فوراً بغاوت کااعلان کر دیا۔ ادھر ایڈرونیکس کے لڑکے نے بھی نوعمر بازنطینی امراء کی ایک جماعت اپنے ساتھ لے کر اپنے دادا شہنشاہ کے خلاف جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ ان شہزادوں کی متحدہ بغاوت نے ایک خطرناک صورت اختیار کرلی۔ مراد اول اس خبر کو سنتے ہی یورپ پہنچا۔ شہنشاہ نے اپنے پوتے کے جرم پر اپنی برات پیش کی اور اس فتنہ کو فرد کرنے کے لیے پوری آمادگی ظاہر کی۔ اسنے مراد کی یہ تجویز بھی منظور کرلی کہ گرفتاری کے بعد دونوں شہزادے اپنی آنکھوں سے محروم کر دیئے جائیں۔’’صادو جی‘‘ کی فوج نے اپنے سلطان کی زبان سے معانی کا وعدہ سن کر باغی شہزادے کا ساتھ چھوڑ دیا۔ صادو جی، ایڈرونیکس کا بیٹا اور نوجوان بازنطینی امراء گرفتار کر کے سامنے لائے گئے۔ 
مراد نے سب سے پہلے اپنے بیٹے صادو جی کی آنکھوں میں گرم سیسہ ڈال کر اسے اندھا کر دیا اور پھر اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ بازنطینی امراء ’’دریائے ماٹینرا‘‘ میں غرق کر دیئے گئے جبکہ اینڈرونیکس کے بیٹے کو شہنشاہ کے پاس بھیج دیا گیا۔ شہنشاہ نے حسب وعدہ اپنے پوتے کی آنکھوں میں سیسہ ڈلوایا لیکن اس طرح کہ اس کی بینائی ضائع نہ ہوئی۔
’’قسطنطین‘‘ آج اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ یاد کرکے اپنے اسلاف کی کوتاہیوں پر رو رہا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ عثمانی سلطان ’’بایزدید یلدروم‘‘ کے دور میں بایزید یلدرم نے شہنشاہ کو دھمکی دی تھی کہ وہ اس کے بڑے بیٹے اینڈرونیکس کو بزرو شمشیر تخت پر بٹھا دے گا۔ چنانچہ ’’پلیو لوگس‘‘ ایک جدید صلح نامے پر مجوبر ہوا۔ جس نے بازنطینی سلطنت کی رہی سہی ساکھ خاک میں ملا دی۔ جان پلیولوگس اور اس کے چھوٹے لڑکے مینوئیل نے جو تخت سلطنت میں اپنے باپ کا شریک تھا۔ معاہدہ کیا کہ تیس ہزار طلائی سکے بطور خراج وہ ہر سال ادا کریں گے اور بارہ ہزار کا ایک فوجی دستہ شہنشاہ کی طرف سے ہر وقت بایزید کی خدمت میں حاضر رہے گا۔
ایشیائے کوچک میں بازنطینی سلطنت کے مقبوضات میں سے اب صرف ایک قلعہ ’’فلاڈلفیا‘‘ اور باقی رہ گیا تھا۔ اس صلح نامے میں وہ بھی ’’بایزید‘‘ نے اپنے نام لکھوا لیا۔ لیکن اس قلعہ کے یونانی افسر نے شہنشاہ کے حکم کے باوجود قلعہ خالی کرنے سے انکار کر دیا۔ بایزید نے شہنشاہ کو مجبورکیا کہ وہ خود اپنی فوج کے ذریعے سے قلعہ خالی کرا دے۔ چنانچہ دولت بازنطینہ کے انتہائی زوال کا یہ عبرتناک واقعہ بھی ظہور میں آیا کہ یونانی سپاہیوں نے ’’فلاڈلفیا‘‘ پر حملہ کیا اور اسے فتح کرکے بایزید کے حوالے کر دیا۔ یہ گویا قسطنطنیہ کے انجام کی نشاندہی تھی۔(جاری ہے)

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا... قسط نمبر 94 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں