باسل عرف ببلو نو سال کا ایک نٹ کھٹ بچہ تھا وہ ذہین تو بہت تھا لیکن شریر بھی پرلے درجے کا تھا ۔
کلاس میں اس کی کارکردگی ہمیشہ بہت اچھی ہوتی تھی جس کی وجہ سے تمام استاد اور گھر پر والدین اور اس کے بہن بھائی اس سے خوش رہا کرتے تھے لیکن اس کی یہ عادت بہت بری تھی کہ وہ ضدی بھی بہت تھا ۔
کبھی اس کی امی اسے منع کرتیں کہ بیٹا پودوں کے پتے مت نوچو تو کبھی آپا اس سے خفا رہتیں کہ وہ چھوٹے بھائی کی کاپی پر کارٹون بنا دیتا تھا ۔۔۔
چھوٹی چھوٹی شرارتیں کرتے ہوئے ایک دن اس کے جی میں آئی کہ پتنگ اڑاتے ہیں ۔وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کئی پتنگیں لے آیا اور اڑانے کے لئے اپنے دوست ابرار کے گھر چلا گیا ۔۔۔ابرار کے بڑے بھائی کام پر گئے تھے اور اس کی امی محلے میں کسی خاتون کی تیمار داری کرنے گئی تھیں ۔۔۔
ببلو کا گھر اور اس کی چھت تو بہت محفوظ تھی لیکن ابرار کے گھر کی چھت پر صرف دو دو فٹ کی چار دیواری سی تھی ۔۔۔ابرار ببلو کا بہت گہرا دوست تھا اس لئے کسی نے بھی ابرار کے گھر جانے پر کوئی اعتراض نہ کیا لیکن ببلو کے بڑے بھائی عماد کو دل ہی دل میں کچھ ہو رہا تھا کہ ببلو تو ٹیوشن بھی پڑھ آیا ہے، سکول سے بھی ہو آیا ہے تو اب وہ کیوں ابرار کے گھر جا رہا ہے، وہ تو اسے روکتے رہے تھے اور ببلو میاں تیزی سے ابرار کے گھر بھاگ گئے ۔۔۔
ببلو نے ابرار سے ہی پتنگ اڑانا سیکھی تھی ۔۔۔وہ دونوں بہت خوش تھے کہ اچانک بہت تیز ہوا چلنا شروع ہو گئی پتنگ ہوا کے زور سے بہت بھاری ہو گئی اور دونوں چھوٹے بچوں سے اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا ۔۔
پتنگ سنبھالتے سنبھالتے ببلو نے اپنے پائوں آگے کئے اور نیچے دیکھا تو وہ ڈر گیا کیونکہ وہ تو چلتا چلتا چار دیواری کے کونے پر آ گیا تھا، ابرار بھی پریشانی کے عالم میں ببلو کو دیکھ رہا تھا لیکن اس میں بھی اسے بچانے کی ہمت نہ تھی ۔۔۔
ببلو نے آنکھیں بند کر کے جتنی دعائیں اسے یاد تھیں، پڑھ لیں ۔۔۔۔وہ خوف سے آنکھیں میچے کھڑا تھا کہ اچانک بھائی جان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے چار دیواری سے نیچے اتارا ۔۔۔اسکے ہاتھ سے پتنگ کی ڈور سنبھالی اور پتنگ کو ہوا سے واپس کر لیا ۔۔
ببلو بہت ڈرا ہوا تھا بھائی جان نے کہا ، اچھا ہوا میں تمھارے پیچھے چلا آیا، ببلو تم سمجھدار بچے ہو ،آئندہ ایسا کھیل نہ کھیلنا جس سے کسی کی جان جا سکتی ہو، گلا کٹ سکتا ہو اور خدا نخواستہ ،تم گر جاتے تو ہم اپنا پیارا سا ببلو کہاں سے لاتے ۔؟ ۔۔
بھیا سوری ببلو اور ابرار دونوں ایک ساتھ سوری بولے تو بھیا بھی خوشی سے ہنس دئیے اور دونوں کو گلے لگا لیا ۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔