کلام اقبال (شرح بال جبریل) (1)

Jun 20, 2017

پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر

اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر؟
مجھے معلوم کیا! وہ رازداں تیرا ہے یا میرا؟
محمدؐ بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
اس نظم کو سمجھنے کے لئے ہمیں بال جبریل کی پہلی نظم کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ پہلی نظم کے آخری شعر میں علامہ نے فرمایا تھا:
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم راز کی بات ہے کہ تمام مخلوقات میں انسان کا مرتبہ و مقام سب سے بلند ہے۔ سمجھنا چاہئے کہ الٰہی مخلوقات دو طرح کی ہیں۔ ایک مخلوق وہ کہ جو بے اختیار ہے وہ الٰہی احکامات کو ہر لحظہ ہر لحاظ سے ماننے کی پابند ہے۔ مثلاً نباتات، جمادات، فرشتے وغیرہ۔

فرشتوں کے بارے میں اللہ نے خود ارشاد فرمایا: ’’وہ کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے، ان کو جو حکم دیا جاتا ہے وہ اسی وقت اس پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں‘‘۔۔۔ دوسری مخلوق وہ ہے جس کو محدود اختیار دئیے گئے ہیں۔ مثلاً انسان اور جنات۔ان کے سامنے نیکی اور بدی کی دونوں راہیں کھلی ہیں دونوں راستوں کے نتائج بھی سمجھا دئیے گئے ہیں۔ ان دونوں راستوں کے نتائج کا علم انبیاء و صالحین کے توسط سے انسانوں اور جنات پر واضح کر دئیے گئے ہیں اور ان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی منشاء و مرضی سے دونوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کر لیں۔ علامہ نے انجم کا لفظ محدود اختیارات کی حامل مخلوقات، یعنی انسان اور جنات کے لئے استعمال کیا ہے ۔ فرمایا: اگر کج رو ہیں انجم یعنی محدود اختیار کی حامل مخلوق،یعنی انسان و جنات بے راہ روی کا شکا ر ہیں اور اعمال صالح کی بجائے بدعملی کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں تو پھر اس میں مورد الزام کس کو ٹھہرایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ سب زیر آسماں مخلوق تو تیری ہی پیدا کردہ ہے۔ لہٰذا اے اللہ!ان کی بے راہ روی کی ذمہ داری آپ پر ہی ہے۔ عقل پرست انسان بھی یہی کہتا ہے کہ جب اللہ نے ہماری تقدیر ہی میں لکھ دیا تو ہماری بد عملی کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہم تو یہ بد عملی کرنے پر تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہیں لہٰذا اس بے راہ روی کا الزام ہم پر کیسا۔۔۔ قرآن مجید میں انسان کی اس کیفیت کا تذکرہ سورۃ الانعام کی آیت 147میں اس طرح کیا گیا ہے: ’’اب یہ مشرک لوگ کہیں گے اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو ہم شرک ہرگز نہ کرتے اور نہ ہی ہمارے آباؤ اجداد ازخود حلال کو حرام ٹھہراتے‘‘ ۔۔۔ یعنی ہم اور ہمارے آباؤ اجداد سب ہمیشہ اچھے عمل ہی کرتے۔ اس لحاظ سے ہماری بدعملی کادوش تو اللہ پر ہی ہے ہم پر نہیں لہٰذا ہمیں مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔علامہ مرحوم نے اس ٹیڑ ھی سوچ کو بالِ جبریل کے پہلے شعر میں اس طرح بیان کیا ہے:
اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟
مجھے فکر جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟
دنیا میں انسانوں میں پھیلی بدعملی کی ذمہ داری انسانوں پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے، کیونکہ خالق کائنات تو تو ہی ہے تو ہی ان کی تقدیر کا بھی خالق ہے لہٰذا یہ سب تیرے سامنے مجبور ٹھہرے۔ اس شعر کی وضاحت میں ایک شارح اقبال لکھتے ہیں: ’’اس کائنات کا بنانے والا تم سے زیادہ دانشمند ہے یا نہیں اگر نہیں تو وہ خدائی کے لائق نہیں (دوسری صورت میں) اگر وہ تم سے زیادہ دانشمند ہے تو تمہیں اس کے افعال پر نکتہ چینی کا حق نہیں ہے۔ مراد اس وضاحت سے بھی یہی ہے۔ خالق کائنات خود خالق تقدیر بھی ہے لہٰذا انسان دنیا میں جو عمل بھی کرے وہ اچھا ہو یا برا ہر ایک کی ذمہ داری خود خالق پر ہی عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا انسانوں کی بدعملی پر انسانوں کو مطعون نہیں کیا جا سکتا۔

پہلی نظم میں عالم مکان کا ذکر تھا، جبکہ دوسری نظم کے دوسرے شعر میں عالم لا مکاں کا تذکرہ ہے۔ لامکاں کیا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال شناس کہتے ہیں کہ یہ ترکیب سب سے پہلے ابوالکلا م نے وضع کی۔ ان کے نزدیک یہ لفظ مکان کی نقیض ہے۔ جیسے نابینا بینا کی نقیض ہے، لیکن منطق سے نابلد لوگ اس کو بینائی کی ضد سمجھتے ہیں،حالانکہ ایسا نہیں۔ بعض اقبال شناس موت کو لامکان سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کی دانست میں انسان کی زندگی کا سفر لامکان کی طرف ہی ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو موت بھی ادراک و شعورکے اختتام ہی کا نام ہے تو گویا شعور کی دنیا مکان ہے اور عدم شعور اصلاً لامکان ہی ٹھہرتا ہے۔ بعض اقبال شناس لامکان کی بحث کو محدود لا محدود کے فلسفے سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسان محدود ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ خود لامحدود ہے۔اس لئے علامہ اس شعر میں اللہ سے گلہ کناں ہیں کہ اے اللہ! تو نے خود کو تو لامحدود ٹھہرا لیا ہے اور مجھے،یعنی انسان کو اشرف المخلوقات قرار دینے کے باوجود محدود کر دیا ہے اور وہ میں محصور ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی صلاحیتیں بھی محدود ہیں اس کے لئے وہ علامہ ہی کے ایک شعر سے دلیل بھی لاتے ہیں:
میرے جنوں کو ہے تیری خدائی سے گِلہ
اپنے لئے لامکاں میرے لئے چار سو
تو گویا یہ لامکان اللہ کی صفت ہوئی جبکہ محدود انسان کی صفت اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو ہنگامہ ہائے شوق کی الجھن باقی رہتی ہے جس کو پہلی نظم میں علامہ تسلیم بھی کرتے ہیں:

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدہ صفات میں
(جاری ہے)

اگر اللہ لامحدود ہے تو وہاں شوق کس کے لئے آئے گا اور نوائے شوق کیسے پیدا ہو گی۔اقبال شناسوں کی ہر توضیح کا اپنا مقام ہے۔ ان کی وضاحت پر ہمارے دیدہ و دِل فرش راہ ہیں، لیکن ہمارے نزدیک مکان و لامکان کا تصور شعور و ادراک سے وابستہ ہے۔ہمارے نزدیک مکان میں باشعور چیزیں شامل ہیں۔ خواہ اس کا شعور کامل ہو یا غیر کامل وہ عالم مکان کا حصہ ہے لامکان میں نباتات، جمادات جیسی اشیاء شامل ہیں۔ ان چیزوں میں سوچ، فکر، شعور نہیں ہے۔ اس لئے ان کے اندر تجسس جستجو خالق تک پہنچنے کی تڑپ ولولہ جوش بھی نہیں ہے۔اسی لئے علامہ نے دوسرے شعر میں فرمایا:
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟
لا مکاں میں جتنی چیزیں ہیں وہ بھی اے اللہ! تیری مخلوق ہیں، لیکن یہ لامکاں نباتات جمادات سے بھرا پڑا ہے۔ اس میں شعور و ادراک مفقود ہے۔ اسی لئے اس میں ہنگامہ ہائے شوق بھی موجود نہیں، ہر چیز جامد ہے ہر چیز ساکت ہے، لیکن جہاں انسان بس رہے ہیں وہ لامکاں نہیں ہے۔ اسی لئے اس حصہ کائنات میں نوائے شوق بھی موجود ہے جو کہ انسان کے ادراک و شعور کا نتیجہ ہے، لہٰذامکاں جو ادراک و شعور کا نتیجہ ہے وہاں شوق، ولولۂ شوق اور ذوق اور نوائے شوق سب کچھ موجود ہو گا، جبکہ لا مکاں جو ادراک و شعور سے خالی ہے وہاں شعور نہیں اس لئے ولولۂ شوق بھی موجود نہیں تو اس نوائے شوق کی عدم موجودگی کا دوش اے اللہ! کس کو دیا جائے گا۔ علامہ نے اسی بات کا اظہار ایک اور انداز میں بھی کیا ہے:
تقدیر کے پابند جمادات و نباتات
انسان فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر؟
مجھے معلوم کیا! وہ رازداں تیرا ہے یا میرا؟
قرآن مجید میں آدم و ابلیس کے درمیان ہونے والے ایک مکالمے کا ذکر ہے۔اس واقعے کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف انداز میں آیا ہے:

’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو توتمام فرشتے سجدہ ریز ہو گئے لیکن ابلیس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیااس نے صرف انکار ہی نہیں کیا، بلکہ اپنے مؤقف پر بڑی ڈھٹائی دکھائی اور اللہ کے سامنے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل بھی دینے لگا۔‘‘
اس کی تفصیل سورۃ الاعراف میں بھی ملتی ہے جس کا تذکرہ اس جگہ ضروری ہے:

’’اے انسانو! ہم نے تم کو بنایا پھر تمہاری شکلیں بنائیں، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم ؑ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ، سب نے سجدہ کر دیا، مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا‘‘۔
اب اللہ اور ابلیس کے باہم مکالمے کا تذکرہ ہے:

’’جب مَیں نے تجھے حکم دیا تھا کہ توسجدہ کر تو تجھے میرا حکم ماننے سے آخر کس بات نے روکے رکھا۔‘‘
ابلیس نے یہ سُن کر جواب میں کہا کہ:
’’مَیں مرتبے میں آدم ؑ سے زیادہ بہتر ہوں۔‘‘
اس بہتر ہونے کی دلیل یہ دی:

مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے لہٰذا میں اس سے بہتر ہوں،کیونکہ مٹی کی خاصیت پستی ہے اور آگ کی خاصیت بلندی و عروج ہے لہٰذا عروج و بلندی کی حقیقت رکھنے والا پست کی صفت والے کے سامنے کیوں جھکے؟
محمدؐ بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟
اقبال کے ایک بڑے شارح نے حرف شیریں سے مراد جذبۂ عشق قرار دیا ہے،لیکن ہمارے نزدیک حرف شیریں رسول اکرمﷺکے فرمودات ہیں جو حدیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ و مصؤن ہیں۔ ان فرمودات کو صحابہ کرامؓ نے عملی شکل میں بھی جمع کیا اور کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔اسی شعر کا پہلا مصرعہ اس دعوے کی تائید ہے اور بہترین ترجمانی کر رہا ہے۔ فرمایا:
محمدؐ بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا
محمدؐ کے قلب اطہر پر قرآن نازل ہوا۔ آپؐ کی بعثت اللہ کے حکم سے ہوئی۔ قرآن کا نزول بھی اے اللہ! تیرے ہی حکم سے ہوا۔ قرآن کو دُنیا میں نازل کرنے کی ذمہ داری اے اللہ! تو نے ہی جبرائیل ؑ کے سپرد کی۔ جبرائیل ؑ قرآن کو لوح محفوظ سے وصول کر کے انتہائی محفوظ طریق سے لے کر آتے اور رسول اکرمؐ تک پہنچاتے، اس طرح قرآن بھی تیری صفت ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تو نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور جبرائیل بھی تیرا ہی حکم بردار ہے۔
اب یہ بتا کہ یہ حدیث رسولؐ جو قرآن کی ترجمانی کرتی ہے یہ کس کی ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کے ساتھ حدیث رسولؐ بھی اصلاً تیری ہی ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے:

’’میرا نبی اپنی زبان سے کچھ بھی ادا نہیں کرتا جب تک کہ میں قرآن کے اسرار و رموز کو اس کے سینے پر نہ کھول دوں۔‘‘
اسی لئے مفسرین نے وحی کی دو قسمیں قرار دی ہیں۔
ایک وحی متلو، یعنی وہ وحی الٰہی جس کی تلاوت کی جاتی ہے، یعنی قرآن مجید۔
دوسری وحی غیر متلو، یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی، لیکن وحی غیر متلو اصلاً قرآن کی شرح ہی ہے ، جس کی مدد لئے بغیرانسان قرآن کے اسرار و رموز اور گہرائی تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔
علامہ اقبالؒ استفہامیہ انداز میں فرماتے ہیں کہ یہ حرف شیریں ترجمان یعنی حدیث بھی اصلاً تیری ہی باتیں اور تیرے ہی احکام ہیں جو رسول اکرمؐ کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں۔ اس لئے جہاں قرآن کو حق ماننا ضروری ہے وہاں قرآن کی ترجمانی کرنے والے حروف شیریں ترجمان ،یعنی حدیث کو ماننا بھی ضروری ہے، جس کے بغیر قرآن فہمی کا دعویٰ ممکن نہیں۔
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟
پانچویں یعنی آخری شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ کوکب کی تابانی سے یہاں مراد محمدؐ اور آپؐ کا لایا ہوا قرآن ہے۔
علامہ مرحوم کا یہ خیال بھی قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے ماخوذ ہے فرمایا:
یہ دونوں یعنی قرآن اور صاحب قرآن کے ذریعے دنیا میں ہدایت کی روشنی پھیلی اور پھیلتی رہے گی، جو ان سے دور رہے گا وہ ہدایت سے دور رہے گا، جو ان سے جتنا قریب ہو گا وہ اسی قدر ہدایت کے نور سے مستفید ہو گا۔ اس کے باوجود دنیا میں پھیلی تاریکی اور ہدایت سے دوری، بدعملی جو نظر آ رہی ہے تو اے اللہ! تو اس نور ہدایت کو عام کر دے تاکہ ہدایت کی روشنی عام ہو جائے۔ یہ ضلالت گمراہی میں مبتلا انسان اگر گمراہی کا شکار رہا اور آخرت میں سزا کا مستحق ہوا تو اے اللہ! یہ نقصان بھی تیرا ہی ہے کیوں کہ یہ مخلوق ساری تیری ہی ہے، اگر بدعملی کی وجہ سے تیری یہ مخلوق دوزخ کی مستحق ٹھہری تو نقصان ظاہر ہے اے اللہ! تیرا ہی ہے۔

’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔‘‘
یہ اندازِ بیان بھی دراصل اللہ کی محبت کو متوجہ کرنے کا طریق ہی ہے جس میں انسانوں کو رب کے قریب لانے اور رب کو مخلوق کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنے کی تمنا کا اظہار ہے۔ واللہ اعلم

مزیدخبریں