ہم سیاستدانوں کے ہاتھوں ہونے والے ملکی و ملی نقصانات کا اگر اندازہ کرنا چاہیں تو انگشت بدنداں رہ جائیں اور اس نقصان کا ازالہ کرنے کو بھی ایک صدی ہی درکار ہواگر ہم صرف قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا ہی حساب کرنے نکلیں تو بھی سالوں لگ جائیں ہمارے سیاست دانوں نے صرف بینکوں سے جس قدر قرض لے لے کر معاف کرا لیا اس کا ہی کوئی حساب نہیں دنیا کی مقروضی تو رہی ایک طرف ہماری مجبوریوں کا ہی شمار نہیں ہمارے۔سیاست دانوں کے عوام پر ڈھائے جانے والے ستم کا ہی جواب نہیں کہ در پردہ ہمارے سیاستدان عوام سے کیسے کیسے کھیل کھیلتے رہے ہیں عوام کا استعمال سیاست دانوں کا محبوب مشغلہ ہے پاکستان میں حکومتیں تو بدلتی رہیں لیکن عوام کے حالات نہ بدلے سیاستدان بھولے بھالے عوام کو امیدوں کی چلمنوں میں وعدہ فردہ پہ ٹالتے رہے ہیں عوام کی حالت بہتر کیسے ہوتی کہ جب ہمارے رہنما ہی ہمیں راستوں میں چھوڑ کر خود اپنی اپنی ڈگر پہ چل نکلے اور عوام کو راستوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا بھٹکتے ہوئے عوام کو پھر کسی انتخابی موڑ پر یہ سیاستدان ملے تو انہوں نے بھولے بھٹکے اور مسافتوں کی تھکن سے چور عوام کو تسلیاں دے کر راضی کر لیا انتخابات کے موسم میں عوام اپنے پاؤں کے چھالوں سے اٹھنے والی ٹیسوں کو بھول کر پھر سے سیاسی دیوتاؤں کے بہلاوے میں آکر ان کی پوجا شروع کر دیتے ہیں مومن نے کہا تھا:
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
بتوں پر کسی کی فریاد کا کیا اثر ہو اور بتوں کی صفات کے مالک ہمارے کچھ سیاسی دیوتا عوام سے اپنی پوجا تو چاہتے ہیں لیکن صلہ دینے کو تیار نہیں اور
عوام سیاست دانوں کے ہاتھوں اس قدر فریب کھا چکے کہ اب انہیں فریب بھی دلفریب معلوم ہوتا ہے یعنی فریبی سیاستدانوں کے دلفریب وعدوں کی دلکشی ہی ایسی ہے کہ کوئی بھی ان کی باتوں میں آجائے لیکن عوام کے احوال کا اندازہ کیجئے جو روز بروز ابتر ہوتے جاتے ہیں مسائل جوں کے توں ہیں اور مسائل کے گرداب میں پھنسے عوام سو اذیتیں اٹھا لیں گے لیکن اپنے سیاسی نمائندوں پر حرف آنے نہیں دیں گے عوام کی یہی کمزوری سیاستدانوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے سیاست دان شاد باد ہیں اور پاک سر زمین کی شاد بادی صرف ترانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ملک میں کوئی بھی مسئلہ سر اٹھاتا ہے تو عوام پابندیوں کی زد میں آجاتے ہیں یعنی کسی بھی صورت میں نشانے پر عوام ہیں سموگ کو ہی لیجئے اگر قیام پاکستان سے اب تک ہم نے کسی حکمت عملی سے کام لیا ہوتا تو کیا سموگ جیسا پانچواں موسم آتا؟لیکن سب کو صرف سیاسی لڑائیاں لڑنی ہیں اور یوں لگتا ہے عوام کے مسائل کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں، کہاں ایک ایم۔فل تعلیم رکھنے والا نوجوان اور کہاں دکانداری؟لیکن یہاں ایم فل۔ پی ایچ ڈی حضرات بھی محروم تمنا ہیں کسی کا مستقبل بھٹہ خشت پر محنت کے دھوئیں میں گم ہے تو کوئی کسی ہوٹل پر ملازمت کی اذیت اٹھا رہا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایسی حالت ہمارے سیاستدانوں کے عوامی حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کی عکاس ہے کہ حکمرانوں کو تو اپنے ساماں تعیش سے فرصت نہیں عوام کے بارے کون سوچے؟کس کو ان خراب حالوں کی فکر ہے سموگ کامسئلہ بنا تو حکومت نے رات آٹھ بجے کے بعد کاروباری بندش لگادی جسکی دکان پانچ منٹ بھی اوپر کھلی رہی تو پولیس نے ان کاروباری حضرات کو دھر لیاکل ہی ایک تعلیم یافتہ نوجوان جو بے روزگاری کے ستم اٹھائے برگر شاپ کی دکان کرتا ہے بتا رہا تھا کہ پولیس کو تو جیسے پنجاب حکومت نے کھلی چھٹی دے دی ہے اگر کاروبار ہی بند کرنا مقصود ہے تو حکومت کو چاہئے کرفیو لگا دے تاکہ کوئی رات باہر بھی نہ نکلے حکومت نے تو دکانوں کو بند کرکے نوگو ایریا بنا دیا جب حکومت عوام کے کاروبار ہی بند کرا دے گی تو بھوک اور ننگ کے مارے مہنگائی کے زخم خوردہ عوام کے پاس کون سا راستہ رہ جاتا ہے سب راستے تو حکومت بند کررہی ہے ایک طرف ایک جماعت حکومت کے خلاف احتجاج کا علم بلند کر چکی ہے اور ڈی چوک پہنچنے کا اعادہ کررہی ہے تو دوسری طرف عوام حکومتی پالیسیوں پر سخت برہم اور نالاں دکھائی دیتے ہیں ایسے حالات میں مستحکم سیاست کا سلسلہ دراز ہوتا نظر نہیں آرہا حکومت کو چاہئے کہ عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور حکومت کے سیاسی مخالفین کو چاہئے کہ وہ حکومت کو سہل راستے فراہم کریں تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔