میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخلیات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جُستجو دیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں
بال جبریل میں علامہ اقبالؒ نے پہلی مرتبہ اُردو زبان کو ابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ اس سے قبل علامہ اقبالؒ جاوید نامہ لکھ چکے تھے اور یہ مارکیٹ میں بھی آ چکی تھی، لیکن جاوید نامہ کی ابلاغی زبان فارسی تھی۔ اسی طرح آپ نے 1914ء میں اسرار خودی لکھی۔ 1915ء میں رموز بے خودی معرض وجود میں آئی، پھر 1922ء میں پیام مشرق لکھی۔ 1927ء میں زبور عجم لکھی اور 1932ء میں جاوید نامہ لکھا۔ یہ سب کلام فارسی زبان میں تھا۔ ان کتب کو زیادہ پذیرائی نہ ملی، کیونکہ عام لوگوں کی زبان اُردو تھی، فارسی زبان کی تفہیم ان کے لئے مشکل تھی۔یہ وہ دور تھا، جب انگریزی استعمال نے برصغیر میں اپنے استبدادی پنجے پوری طرح گاڑھ رکھے تھے اور اہل ہند پر انگریزی زبان کی برتری چھا چکی تھی۔ اس کے باوجود پڑھے لکھے لوگوں میں فارسی علمی زبان سمجھی جاتی تھی اور زیادہ تر علمی کام اسی زبان میں ہوتا تھا،اسی لئے علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے افکار کے ابلاغ کے لئے فارسی ہی کو بنیاد بنایا، اسی لئے علامہ اقبالؒ کا کلام بھی زیادہ تر اس زبان میں معرض وجو د میں آیا، لیکن چونکہ عام لوگ فارسی سے نابلد تھے، اس لئے جاوید نامہ، اسرار خودی، رموز بے خودی وغیرہ کو عام لوگوں میں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی اور علامہ اقبالؒ کی فکر، علامہ کے نظریات اہل ہند کے ذہنوں میں پوری طرح سرایت نہ کرسکے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ علامہ اقبالؒ شاعری محض شاعری کے حوالے سے نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کا مقصد تو اسلامی فکر کو عام کرنا اور اہل ہند، خصوصاً مسلمانوں کو جگانا مقصود تھا، تاکہ ہند کے رہنے والوں، خصوصاً مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو اور وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔اس لئے انہوں نے بال جبریل کو اُردو کا قالب دیا۔ جب یہ کتاب شائع ہوئی تو عوام نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا، خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور عام لوگوں کو فکر اقبال سے خوب آشنائی ملی۔ قرآن مجید میں فاتح قوموں کی نفسیات کا تذکرہ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْٓا اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃً‘‘
ترجمہ:’’کہ بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں‘‘۔
اسی اصول کے تحت برصغیر میں انگریزی تہذیب وتمدن اپنا گھر کر رہا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے انگریزی استعمار کے بڑھتے ہوئے طلسم کو توڑنے کا عزم کیا، چونکہ فارسی علمی زبان تھی، اسی لئے علامہ اقبالؒ نے اپنے افکار کے ابلاغ کے لئے فارسی زبان ہی کو اختیارکیا،لیکن برصغیر کے باشندے فارسی زبان سے نابلد تھے، اس لئے علامہ نے فارسی کو چھوڑا اوراُردو کو ذریعہ ابلاغ بنایا۔ بال جبریل میں کلام اقبال کی زبان اُردو ہے۔ اُردو زبان برصغیر کے لئے آسان اور قابل فہم تھی، اس لئے بال جبریل کی قبولیت کا گراف روز افزوں ہوا۔ بہت پسند کیا گیا اوراقبال کے پیغام کو خوب خوب قبولیت حاصل ہوئی اور پیغام اقبال فلسفیت سے نکل کر عوام کے نہاں خانۂ ول کو منور کرنے لگا۔ بال جبریل کی پہلی غزل کے پانچ اشعار میں پہلے شعر کے الفاظ ہیں:
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
اس شعر میں تین تراکیب قابل غور ہیں۔ایک نوائے شوق، دوسری حریم ذات، تیسری بت کدۂ صفات۔۔۔ ان تینوں تراکیب کو سمجھے بغیر پہلے شعر کی اصل تک پہنچنا مشکل ہے۔نوا کا مطلب ہے آہ و زاری، فریاد۔ نوائے شوق سے مراد یعنی شوق کی آواز۔ ایک بڑے شارح اقبال نے اس کو عشق کی صدا ، عشق کی آواز، محبت کی آواز سے تعبیر کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ عاشق اپنے دل میں چھپی آہ و زاری کی آواز کے اظہار میں مجبور ہوتا ہے۔ اس کا اظہار اس کی ضرورت بھی ہے اور کمزوری بھی، جس کے اظہار کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا۔وہ مزید فرماتے ہیں:
’’ ایک عاشق جب اپنے معشوق سے دور ہوتا ہے تو احساس دوری اس کی مجبوری بن جاتا ہے، پھر وہ اس کا اظہار نالہ و فریاد کی شکل میں کرتا ہے۔ یہ نالہ و فریاد اس کی زندگی کا مستقل جزو قرار پاتا ہے جو اس کی زندگی کو مستقل بے کل کئے رکھتا ہے۔ اس کی یہ آہ و بکا چونکہ مستقل ہوتی ہے تو اس آہ و بکا کا شور اتنا شدید ہے کہ صفات کے بت کدۂ میں اس کی برداشت نہیں رہتی اور وہ الاماں الاماں پکارنے لگتا ہے اور پورے بت کدے میں الاماں الاماں کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ ان شارح محترم کی مذکورہ توضیح کا اپنا مقام ہے، اپنا مرتبہ ہے لیکن ہماری دانست میں بت کدۂ صفات سے مراد یہ مادی دنیا کے تمام مظاہر ہیں، جن میں انسان الجھ کر رہ جاتا ہے اورانہی کو اصل قدرت سمجھ بیٹھتا ہے اور مادہ پرستی ہی کو اپنا ہدف بنا لیتا ہے، لیکن جب انسان اس مادی دنیا کو بے حیثیت خیال کرکے الا اللہ کا خوگر ہو جاتا ہے تو اس کے اس عمل سے بت کدۂ صفات، یعنی مادی دنیا کی نفی دل میں گھر کرنے لگتی ہے۔ اس نفی سے ساری مادی دنیا الاماں الاماں کی پکارسے معمور ہو جاتی ہے۔ جس انسان کو الا اللہ کی سمجھ آجاتی ہے تو اس کو گوہر مقصود حاصل ہونے لگتا ہے۔علامہ نے ایک اور جگہ اس فلسفے کو سمجھانے کی کوشش میں اس طرح کہا :
نفی ہستی اک کرشمہ ہے دلِ آگاہ کا
لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا
یہی وہ راز ہے جو لا الہ الااللہ میں موجود ہے۔اس شعر میں فلسفہ دعا کو واضح کیا گیا ہے۔ بت کدۂ صفات سے مراد مظاہر قدرت ہیں، جن کو انسان اصل حقیقت سمجھ بیٹھتاہے اور اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھئے برقی رو جو روشنی دیتی ہے، ایک بٹن کے on-offسے برقی رو جاری یا منقطع ہوتی نظر آتی ہے، لیکن اصل طاقت، یعنی برقی روبٹن میں نہیں۔ اگر کوئی ظاہر بین اس بٹن ہی کو اصل خیال کرے کہ برقی رو اس بٹن میں موجود ہے تو یہ خیال باطل ہوگا، کیونکہ برقی روکا منبع تو بہت پیچھے تربیلا کا گھر ہے، بجلی کا بٹن نہیں، کیونکہ برقی رو کا منبع تو بہت دور ہے۔ یہ بجلی تو تربیلا یا منگلا سے آ رہی ہے، اسی طرح دنیا میں تمام طاقتوں کا مرکز اللہ کی ذات ہے۔ دنیاوی وسائل وذرائع صرف نظر آرہے ہیں، اصل طاقت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ وہی تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ دنیا کا ہر کام اسی کے حکم کے تابع ہے۔اسی طرح پانی کا اجراء پانی کی ٹوٹی کھولنے سے ہوتا نظر آتا ہے۔ ٹوٹی بند کر دیں تو پانی کا بہاؤ بند ہوجاتا ہے۔ ظاہر بین شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پانی اس ٹوٹی میں موجود ہے، حالانکہ پانی ٹوٹی میں نہیں، پانی کا ذخیرہ بہت دور ہے، یعنی پانی بہت بڑی ٹنکی سے آ رہا ہے۔ اسی طرح دنیا میں موجود تمام چیزیں مظاھر قدرت الہٰی ہیں۔ اصل مرکز اللہ کی ذات ہے، جس کے حکم سے یہ سارا نظام کائنات چل رہا ہے۔ لہٰذا انسان کو اللہ ہی سے اپنی ہر مراد مانگنی چاہیے۔ نوا کا مطلب ہے آواز۔ نوائے شوق، یعنی شوق و محبت سے لبریز آواز۔ یہ عشق و محبت ایسی آواز ہے جس کو نہ تو مخفی رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ضبط کے بندھن میں باندھ کر اظہار کے عمل سے روک کر رکھا جا سکتا ہے۔
بت کدۂ صفات، یعنی صفات کا بت کدہ۔ اس سے مراد مظاہر قدرت ہیں، مثلاً سورج اور سورج کی روشنی۔ پانی اور پانی کی ٹھنڈک۔ آگ او رآگ کی تپش۔ زمین، زمین سے اگنے والی پیداوار سب مظاہر قدرت ہیں۔ یہ اپنی ذات میں قدرت نہیں، قادر خود اللہ کی ذات ہے۔ دنیا کی طاقتیں اللہ کی قدرت کا مظہر ہیں۔خود قدرت نہیں ہیں۔ مطلب یہ کہ جب انسان ان مظاہر قدرت کی اصلیت کو جان لیتا ہے اور اسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، اسی سے دعائیں مانگتا ہے اور اصل ذات، یعنی اللہ کی ذات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی تمام حاجات کا مرکز اللہ کو مان کر اور ان مظاہر قدرت سے منہ موڑ کرایک اللہ کا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو ان مظاہر قدرت میں الاماں الاماں کا غلغلہ مچ جاتا ہے کہ یہ انسان ہمیں چھوڑ کر اصل حقیقت کا شعور حاصل کر رہا ہے اور اس طرح اپنے رب کی ذات تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو ان مظاہر قدرت، جن کی کثرت دنیا میں موجود ہے، ان کے وجود پر ضرب لگتی ہے تو یہ الاماں الاماں کا غلغلہ بلند کر دیتے ہیں اور کائنات میں موجود ان بتوں کو اپنی ہستی معدوم ہوتی نظر آتی ہے اور انسان عقیدۂ توحید کا خوگر ہو جاتا ہے اور اپنے رب کا حقیقت شناس ہو جاتا ہے۔ اسے ان تمام چیزوں میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات جلوہ گر نظر آتی ہے اور وہ غیر اللہ سے کٹ کر اللہ کا ہوجاتا ہے یہی اس کی معراج ہے۔ تو ظاہری بت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دوسرا شعر:
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخلیات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
دوسرے شعر میں علامہ فرماتے ہیں :حور و فرشتہ ہیں اسیر۔ اسیر کا مطلب ہے قیدی۔ کائنات میں دوطرح کی مخلوق ہے۔ ایک وہ جو محسوسات کی دنیا ہے، جن کا ادراک انسان کو حواس کے ذریعے ہو جاتا ہے، مثلاً شجر حجر، زمین آسمان، تارے، ہوا، آگ، پانی، مٹی۔ دوسری وہ مخلوق جو غیر مرئی ہے، جس کے وجود کا ادراک انسان کو ظاہری حواس سے نہیں ہو پاتا۔ ان میں حوروں کا وجود، فرشتوں کا وجود اور خود اللہ کی ذات کا وجود نیز جنت، دوزخ، عرش، کرسی وغیرہ سب شامل ہیں۔پہلے شعر میں فرمایا تھا انسان کی کمال معراج اللہ کی ذات تک پہنچنا ہے۔ جہاں تک حوروں اور فرشتوں کے وجود کا معاملہ ہے، یہ سب غیر مرئی مخلوق تک میری رسائی موجود ہے، کیونکہ یہ میرے تخیل کی قید میں ہیں، یعنی ان کا شعور میں اپنے ذہن کی رسائی کے حوالے سے پوری طرح رکھتا ہوں۔ میری اس سوچ و فکر کی وجہ سے تیری تجلیات، یعنی مظاہر قدرت کی نفی میری ژرف نگاہی نے پوری طرح کر دی ہے اس لئے ان تمام مظاہر قدرت کے اندر خلل پیدا ہوگیا ہے ان کو اپنا وجود اور اپنی بقا معرض خطر میں نظر آ رہی ہے۔
تیسرا شعر:
گرچہ ہے میری جُستجو دیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
تیسرے شعر میں علامہ فرماتے ہیں، اگر انسان کی جستجو کے مراکز عبادت خانے ہیں، یعنی دیر و حرم ہیں اور انسان ان مقامات میں عبادت کے لئے جاتا ہے، تاہم یہ انسان کی جستجو دراصل معرفت الہٰی ہے۔ اس طرح کعبہ ہو یا بت خانہ سومنات۔یہاں انسان کی آہ و فغاں ایک ہی مقصد کے لئے ہوتی ہے۔ یہاں ایک التباس پیدا ہونا بدیہی امر ہے کہ علامہ نے کعبہ اور بت خانے کا تذکرہ ایک ہی جگہ کر دیا ہے او ران کو یکساں مقام دے دیا ہے، لیکن چوتھے شعر میں اس کی اصل وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
چوتھا شعر:
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
لیکن صحیح فکر کے حامل انسان، یعنی مسلمان کی نگاہ معرفت الہٰی تک پہنچ گئی جو مقصود اصلی ہے او رایک مسلمان تیرے بندے نے سو پردوں میں بھی اپنے رب کا ادراک حاصل کر لیا اور مسلمان اپنے شعور، یعنی علم وحی کے ذریعے اصل حقیقت تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
پانچواں شعر:
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں
یہ پہلی غزل کا آخری شعر ہے۔ اس میں علامہ اقبال حیرت و استعجاب کے ساتھ ایک شکوے کا اظہار کرتے ہیں کہ اے اللہ!تو قادر مطلق ہے، لیکن یہ کیا ہوا کہ کائنات کا ایک پوشیدہ راز تھا جو کسی پر عیاں نہیں تھا، لیکن اے اللہ! تو نے اس مخفی راز کو بھی کائنات پر ظاہر کر دیا۔یہ راز کیا تھا، اس راز کی نوعیت کیا ہے؟ اس پر اہل علم نے بہت سی بحثیں کی ہیں۔ بعض نے اس سے مراد فلسفہ وحدت الوجود لیا، بعض نے وحدت الشہود کے حوالے سے بہت دور دور کی عقلی بحثیں پیدا کیں۔اقبال کے ایک بڑے شناور نے لکھا کہ اقبال کی یہ پوری غزل وحدۃ الوجود کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اس کے ڈانڈے ہندوؤں کے فلسفہ ویدانت تک ملا نے سے بھی گریزنہیں کیا۔ لکھتے ہیں: ’’ویدانت میں سنسار کو ایشور کی لیلا (کھیل) سے تعبیر کیا گیا ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ ہماری رائے میں یہ اس نظریہ کی تعبیر ہے، یعنی اس نظریہ کو واضح کرنے کے لئے اس سے بہتر تشبیہ ناممکن ہے‘‘۔۔۔(شرح بال جبریل ، ص:68)
ہمارے نزدیک یہ تمام توجیہات و توضیحات دوراز کار بحثوں کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال شارح قرآن ہے، اس کی فکر قرآن سے نمو حاصل کرتی ہے۔ وہ قرآن کے پیغام ہی کو آگے منتقل کرنے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس شعر کی سب سے اعلیٰ و ارفع توضیح قرآن کی یہ آیت ہے:
’’وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِل’‘ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃًط قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ‘‘
ترجمہ:’’ اور (وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے؟ اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں‘‘۔
اقبال نے جس راز کے افشا کا ذکر کیا ہے، وہ تخلیق آدم اور اس کی نیابت کا فرشتوں سے ذکر ہے، کیونکہ راز کی بات ہمیشہ اہم لوگوں سے کی جاتی ہے، اس لئے اللہ نے یہ راز اس وقت کی اعلیٰ مخلوق، یعنی فرشتوں کے سامنے کھولا۔ فرمایا:’’اے فرشتو! میں زمین پر اپنا نائب بنانا چاہتا ہوں ‘‘۔۔۔جب فرشتوں نے یہ بات سنی تو چونک کر بولے:’’اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ‘‘ ۔۔۔ ’’اے اللہ! کیا تو اپنی نیابت اس کے سپرد کر رہا ہے جو دنیا میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا‘‘۔۔۔اللہ نے اس بات کے دو جواب دئیے۔ایک جواب حاکمانہ تھا، دوسرا حکیمانہ۔ حاکمانہ جواب یہ تھا:
’’قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ‘‘
فرمایا: خاموش رہو اعتراض کی گنجائش نہیں، میں وہ کچھ جانتا ہوں جس کا تمہیں پتہ ہی نہیں۔
حکیمانہ جواب دیتے ہوئے فرشتوں سے فرمایا:
’’اَمنْبِءُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھآؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیاوی علوم عطا کر کے فرمایا:
’’اَمنْبِءُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھآؤُلَآءِ‘‘
اے فرشتو! ذرا تم ان چیزوں کے نام تو بتلاؤ، اگر تم اس معاملے میں سچے ہو۔
اس حوالے سے فرشتوں نے اپنی کم علمی اور بیچارگی کا اظہار کیا اور کہنے لگے اے اللہ! ہمیں تو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ ہمارا علم تو محدود ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ آیاَدَمُ اَمنْبِءْھُمْ بِاَسْمَآءِہِمْ‘‘
اے آدم! اب تو بتا۔ آدم ؑ نے وہ تمام علوم بتلا دئیے۔
جب آدمؑ نے یہ تمام علوم واضح کئے تو اللہ نے فرمایا:
’’اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘
اے فرشتو! کیا میں نہیں کہتا تھا کہ زمین و آسمان کے تمام پوشیدہ امور کا بخوبی علم رکھتا ہوں میں تمہاری ظاہری اور پوشیدہ باتوں کا بھی علم رکھتا ہوں اور اس طرح کل کائنات پر آدمؑ کی برتری ظاہر ہو گئی۔
علامہ اقبال کا کلام قرآن ہی کی ترجمانی ہے۔ اس شعر میں اسی نکتے کو بیان کیا گیا ہے۔ اے اللہ!تو نے کیا غضب ڈھایا ہے کہ تخلیق آدم کے ذریعے کائنات کا انتہائی عظیم پوشیدہ راز فاش کر دیا ہے کہ انسان اس کائنات کی اشرف ترین مخلوق ہے اور سب سے برتر ہے۔جب انسان دنیا کے ہر سہارے سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ ہی کو اپنا اصل سہارا خیال کرتا ہے تو یہ عمل اللہ کو انتہائی محبوب ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں اس کو عروۃ الوثقیٰ کا نام دیا گیا ہے۔ شب قدر میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ فرشتوں کا نزول کیوں ہوتا ہے جو بندہ اس رات میں کھڑے بیٹھے اللہ سے مانگتا ہے، الحاح و زاری کرتا ہے ، اللہ فرشتوں سے فخریہ کہتا ہے ، تم نے اس کی تخلیق پر اعتراض کیا تھا، آج اسی بندے کو دیکھو کس طرح مجھے یاد کر رہا ہے۔ یہی مراد ہے شور حریم ذات میں۔ میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں۔ دوسری طرف جب انسان غیر اللہ سے کٹ کر صرف اللہ ہی کا ہو رہتا ہے تو اس کے اس عظیم عمل سے بت کدۂ صفات میں بھی الاماں الاماں کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ ہر غیر اللہ اپنی زبان حال سے ’’بچاؤ بچاؤ‘‘ کی پکار کرتا ہے کہ ان صفات سے متصف انسان سے میں پناہ مانگتا ہوں۔ یہ تو غیر اللہ کا غارت گر ہے اس کی سر گرمیوں سے ہمارے خرمن میں آگ لگ جائے گی اور سب غیر اللہ بھسم ہو کر رہ جائے گا۔علامہ فرماتے ہیں:
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو