گریجویشن تک طالبعلم دوسروں کی رضامندی ہی میں پناہ ڈھونڈتا ہے، اسے مختلف احکامات اور ہدایات کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جاتا ہے
مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:48
جب تک طالب علم ابتدائی سے ثانوی درجے تک پہنچتا ہے، اسے یہ سبق رٹا دیا جاتا ہے کہ اساتذہ کی خوشنودی ورضامندی حاصل کیے بغیر چارہ نہیں۔ مضامین کے انتخاب تک طالب علم کو اساتذہ کے احکامات کی پابندی کرنا پڑتی ہے، پھر اسے اپنے کیے ہوئے فیصلوں پر عمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے وہ نہایت آسانی سے اپنے متعلق دوسروں کے کیے فیصوں پر نہایت آسانی سے عمل کر لیتا ہے۔ کمرہ جماعت میں کسی بھی مضمون کے متعلق اسے وہ لکھنا پڑھتا ہے، جو اسے سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ وہ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنے ذہن سے تخلیق شدہ مواد تحریر نہیں کر سکتا بلکہ وہ اسے دوسروں کے اقوال اور نظریات تحریر کرنے پڑتے ہیں۔ اگر وہ یہ سب کچھ سیکھتا اور پڑھتا نہیں ہے تو اسے امتحان میں بہت کم نمبر دیئے جاتے ہیں …… اور اساتذہ بھی اس سے ناراض ہو جاتے ہیں اور پھر جب ایک طالب علم گریجویشن تک پہنچتا ہے وہ اپنے متعلق اپنی آپ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ مسلسل 12سال سے اے یہی بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ اسے کس طرح سوچنا چاہیے اور کیسا رویہ اور طرزعمل اختیا رکرناچاہیے۔ اس کے ذہن میں مسلسل یہی بٹھایاجاتا ہے کہ ہر معاملے میں اسے اپنے اساتذہ سے پوچھنا چاہیے اور پھر گریجویشن کے دن اس کی قوت فیصلہ مفقود ہو چکی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ دوسروں کی خوشنودی اور رضامندی ہی میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ کامیابی اور خوشی کا یہی راز ہے۔
کالج میں بھی اس کے ساتھ ہی وتیرہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک صفحہ خالی چھوڑ کر لکھو، کھلا کھلا لکھو، صحیح ترتیب سے لکھو، بہتر یہی ہے کہ ٹائپ کروا لو۔ پہلے تعار ف لکھو، پھر نفس مضمون اور پھرنتیجہ لکھو، ان ابواب کا مطالعہ کرو…… اپنے اساتذہ کو خوش کرو اور آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر یہ طالب علم ایک سیمینار میں شرکت کرتا ہے جہاں ایک پروفیسر اپنی تقریب کے دوران اسے پیشکش کرتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مضامین کے انتخاب میں وہ آپ کومدد مہیا کرے گا تاکہ آپ اپنی دلچسپی کے مضامین اختیار کر سکیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ تعلیم تو آپ نے حاصل کرنی ہے، اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق حاصل کریں لیکن مختلف طریقوں کے ذریعے طالب علم کو اپنی مرضی اور خواہش اپنانے کا موقع نہیں دیا جاتا، اسے مختلف احکامات اور ہدایات کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جاتا ہے۔
یہ تمام طریقے وہ ہیں جن کے ذریعے ایک طالب علم کو لازمی طو رپر اپنے اساتذہ کی خوشامد اور چاپلوسی کرنا پڑتی ہے اور مروج امتحانی طریقوں کی موجودگی میں یہ رویہ اورطرزعمل قطعی حیران کن نہیں ہے۔ طالب علم کو یہ سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کی خدمت گزاری کرے، انہیں ناراض نہ ہونے دے۔ اس تمام عمل کا نچوڑ یہ ہے کہ طالب علم اپنے تعلیمی مراحل کے دوران ہر موڑ پر اپنے اساتذہ کی خواہش اور مرضی کے مطابق پڑھے اور سیکھے اور کامیابی کے حصول کا یہی طریقہ آسان اور محفوظ ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔